ڈاکٹر عریف جامعی
رب کائنات نے انسان کو نہ صرف بہترین ساخت کے ساتھ پیدا کیا بلکہ اسے ارادے اور اختیار کی آزادی عطا کرکے آپ اپنی شناخت قائم کرنے کی صلاحیت بھی بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اس ساخت اور آزادئ اختیار سے کام لیکر خدا کی بہت ساری مخلوقات پر اپنا تفوق قائم کرتا ہے۔ اسی تفوق اور فضیلت کا یہ شاہکار ہے کہ انسان زمین پر مجموئی طور پر تعمیر کے کام کرتا ہے اور زمین پر اس کا سفر خوب سے خوب تر کی طرف جاری رہتا ہے۔ اسی سفر کی رفتار اور سمت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کسی انسان یا انسانی جماعت کو رب تعالی زمین پر کہاں اور کب تک اپنا سفر جاری رکھنے کی اجازت دے۔ جب تک کسی فرد یا جماعت کے ہاتھوں کوئی بڑا فساد برپا نہیں ہوتا، تب تک اس کی مہلت عمل برقرار رہتی ہے۔ تاہم جونہی بگاڑ کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہو، تو اس کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’اگر اللہ تعالی بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا۔‘‘(البقرہ، ۲۵۱)
تاہم دنیا میں قانون مکافات عمل کچھ اس طرح جاری نہیں کہ ہر غلط کار کا موقعے پر ہی ہاتھ پکڑا جائے یا ہر نیکوکار کو عمل صالح کرتے ہی اس کی جزائے خیر دی جائے۔ اگر ایسا ہو تو ایک طرف انسان کو تفویض کردہ اختیار کوئی نفع نہیں دے گا اور دوسری طرف تخلیق انسان کے پیچھے مصلحت امتحان و آزمائش بھی بے معنی ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کا ارشاد ہے: ’’کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالی ابر کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے۔‘‘ (البقرہ، ۲۱۰) اس طرح انسان کی طرف سے آخرت کو مطمح نظر بناکر عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور خدا کی طرف سے انسان کو آزمانے کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق انسان کو ایک طرف اس کو عطا کی گئی استطاعت (البقرہ، ۲۸۶) اور دوسری طرف اس کو عطا کیے گئے مواقع (الطلاق، ۷) کے تحت آزمایا جاتا ہے۔
یعنی ’’جن کے رتبے ہیں سوا، ان کی سوا مشکل ہے‘‘ کے لافانی اصول کے تحت ہر کسی کی آزمائش ہوتی رہتی ہے۔ تاہم قرآن کی رو سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، جن پر رب تعالی کے خصوصی انعام و اکرام ہوتے ہیں، کی آزمائش بھی نہایت مشکل ہوتی ہے۔ چونکہ جمعیت انبیاء کی عصمت محفوظ ہوتی ہے، اس لئے ان کا ہر کام رب تعالی کی راست نگرانی میں ہوتا ہے۔ صدیقین صدق افکار، صدق مقال اور صدق اعمال کے ذریعے اپنی صدیقیت ثابت کرتے ہیں۔ شہداء شاہراہ حق میں اپنی متاع جان پیش کرکے حق کی شہادت پیش کرتے ہیں۔ صالحین اپنے معاملات زیست میں رب تعالی کی رضا کے کچھ اس طرح طالب بن کر رہتے ہیں کہ ان سے فقط صلح وقوع پذیر ہوتی ہے۔
شہداء کی اس صف میں سیدنا حسینؓ ایک گل سربد کی طرح نمایاں ہیں۔ آپؓ خاندان نبوت کے چشم و چراغ تھے۔ آپ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی تھی جب حکمت قرآن امت کے لئے ذکر و فکر کا سامان کررہی تھی۔ ظاہر ہے کہ آپ کا پیراہن صالحیت ہدایت کی اسی تجلّی سے منور ہوچکا تھا اور آپ کی شخصیت بھی اسی ہدایت سے تشکیل پاچکی تھی۔ تاہم سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسینؓ کے طبائع میں ایک فرق ضرور تھا۔ جہاں سیدنا حسنؓ کی طبیعت جمالی صفات کی حامل تھی، وہاں سیدنا حسینؓ کی طبیعت میں جلال نمایاں تھا۔ اس لئے دونوں کا مختلف معاملات سے نمٹنے کا طریقۂ کار (اپروچ) ذرا مختلف ہوا کرتا تھا۔
واضح رہے کہ سیدنا حسینؓ نے مملکت اسلامیہ کے توسیعی عمل میں سیدنا عثمان ؓ کے دور خلافت میں سیدنا عبد اللہ ابن سعد ابن ابی سرح کی قیادت میں غزوۂ طرابلس (۲۶ ھ) میں حصہ لیا۔ اسی طرح آپ نے خراسان، طبرستان، جرجان، وغیرہ (۳۱ ھ) کی جنگی مہمات میں بھی حصہ لیا۔ جب سیدنا حسن ؓ امت کے وسیع تر مفاد میں سیدنا معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے، تو سیدنا حسینؓ نے بھی سیدنا معاویہؓ کی بیعت کی۔ یعنی آپ نے سیدنا حسنؓ کے فیصلے کو قبول کیا۔ سیدنا معاویہؓ کے دور حکومت میں آپ ایک ذمہ دار، معتبر، معزز اور جرأت مند شہری کی طرح زندگی گزارتے رہے اور حکومت کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ سیدنا حسن ؓ کے انتقال کے بعد آپ کے سیدنا معاویہ ؓکے ساتھ نہایت خوشگوار تعلقات رہے۔ (البدایہ و النہایہ)
لیکن سیدنا معاویہؓ کا اپنی حیات ہی میں یزید کو ولیعہد مقرر کرنا سیدنا حسینؓ کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ سیدنا معاویہؓ کی وفات کے بعد یزید نے مدینہ کے گورنر، ولید ابن عتبہ ابن ابی سفیان سے مدینہ کے ارباب حل و عقد سے بیعت لینے کے لئے کہا۔ گورنر سے سیدنا حسینؓ کے ساتھ ساتھ سیدنا عبد اللہ ابن عمر، سیدنا عبد اللہ ابن زبیر اور سیدنا عبد الرحمن ابن ابی بکر (جو ایک روایت کے مطابق اس وقت فوت ہوچکے تھے) سے بھی بیعت لینے کی تاکید کی گئی۔ ملا باقر مجلسی کے مطابق ولید (گورنر مدینہ) سیدنا حسین ؓ کا نہایت خیرخواہ تھا۔ اس لئے وہ آپ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ (جلاء العیون، ص، ۴۲۴) تاہم جب ولید نے کسی شخص کو سیدنا حسین ؓ کے پاس بھیجا تو آپ نے فرمایا: ’’کہہ دو صبر کرے، میں اس رات اس بارہ میں غور و فکر کروں گا۔‘‘
مدینہ منورہ کو چھوڑتے ہوئے سیدنا حسین ؓ اور آپ کے بھائی، محمد بن حنفیہؓ کے درمیان ہونے والا مکالمہ نہایت دلچسپ ہے۔ آپ کے بھائی آپ کو یوں مشورہ دیتے ہیں: ’’بھائی! میں آپ کے حق میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ بیعت یزید سے کنارہ فرمائیے اور شہروں سے دوری اختیار کرکے جنگل کی طرف تشریف لے جائیے اور لوگوں کے پاس قاصد بھیج کر اپنی بیعت کی دعوت دیجئے۔۔۔ مجھے خوف ہے کہ آپ کسی شہر میں داخل ہوں اور اہالیان شہر اختلاف کرکے کچھ آپ کی طرف ہوجائیں اور کچھ مخالفت کریں، یہاں تک کہ جدال و قتال کی نوبت آئے اور آپ کی جان اور آپ کے اہل بیت کی جانوں کو نقصان پہنچے۔‘‘ بہرحال سیدنا حسینؓ نے جواباً فرمایا: ’’اے بھائی! اگر کہیں بھی مجھے پناہ نہ ملے گی، یزید سے بیعت نہ کروں گا۔‘‘
جب سیدنا حسینؓ مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ منتقل ہوئے تو اہل کوفہ نے سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر میں جمع ہوکر حالات پر مشاورت کے بعد سیدنا حسینؓ کو لکھا کہ ’’آپ ہماری طرف توجہ فرمائیں اور ہمارے شہر میں قدم رنجہ فرمائیں کہ ہم سب آپ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں۔‘‘ اس خط کے صرف دو روز بعد اہل کوفہ نے تین قاصدوں کے ہاتھ ڈیڑھ سو خطوط سیدنا حسینؓ کی خدمت میں بھیجے۔ خطوط کا نچوڑ یہ تھا کہ ’’بہت جلد آپ اپنے دوستوں، ہوا خواہوں کے پاس تشریف لائیے۔ کیونکہ تمام لوگ آپ کے قدوم مسرت لزوم کے منتظر ہیں اور بغیر آپ کے دوسرے شخص کی طرف لوگوں کو کوئی رغبت نہیں ہے۔‘‘ اگرچہ خطوط آنے کا یہ سلسلہ جاری رہا، لیکن سیدنا حسینؓ نہایت ہی احتیاط اور تامل سے کام لیتے رہے۔ تاہم جب متعدد قاصدوں کے ہاتھوں بارہ ہزار خطوط سیدنا حسینؓ کے پاس جمع ہوئے، تو آپؓ نے لکھا: ’’واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے بھائی اور چچا کے بیٹے جو میرے لئے نہایت قابل اعتماد ہیں، آپ کے پاس بھیجتا ہوں۔ ان کا نام مسلم ابن عقیلؓ ہے۔‘‘
اہل کوفہ نے سیدنا مسلم ابن عقیلؓ کا کچھ اس طرح استقبال کیا کہ اٹھارہ ہزار (بعض مؤرخین کے مطابق اسی ہزار) لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ کوفیوں کے اس ’’مثبت رد عمل‘‘ سے متاثر ہوکر سیدنا مسلم ابن عقیلؓ نے سیدنا حسین ؓ کو جلدی کوفہ آنے کا خط لکھا۔ اہل کوفہ نے جس قسم کا رویہ سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنؓ کے تئیں روا رکھا، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ سیدنا مسلم ابن عقیلؓ نے کوفیوں کی متلون مزاجی کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدنا حسین ؓ کو خط لکھنے میں بڑی تعجیل سے کام لیا۔ کوفیوں کے مزاج کے اس تلون پر مشہور شاعر، فرزدق کا وہ تبصرہ نہایت برملا اور برحق ہے جو اس نے سیدنا حسینؓ کے سامنے اس وقت پیش کیا جب آپ ؓ سفر عراق (کوفہ) کا عزم کرچکے تھے۔ آپؓ کے یہ پوچھنے پر کہ ’’اہل عراق کا کیا حال ہے،‘‘ فرزدق نے جواب دیا تھا: ’’ان کے دل آپ کی طرف اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔ اور جو کچھ خدا چاہتا ہے، کرتا ہے۔ قضائے خدا سے چارہ نہیں۔‘‘ یہی کچھ ہمیں اس وصیت میں بھی نظر آتا ہے جو سیدنا مسلم ابن عقیلؓ نے اپنی شہادت سے قبل عمر ابن سعد کے سامنے سیدنا حسین ؓ کے لئے لکھوائی: ’’اور تیسری وصیت یہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کو اس مضمون کا خط لکھ کر کہ کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی ہے اور آپ کے چچا زاد بھائی کی نصرت و یاوری نہ کی، ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے، لہذا آپ اس طرف نہ آئیں۔‘‘
تاہم اہل کوفہ کی غداری اور بے وفائی کا مکمل حال آپؓ کو اس وقت معلوم ہوا جب آپؓ کوفہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جب حر بن یزید الریاحی نے شام کا راستہ روک کر آپؓ کو عبید اللہ ابن زیاد کے پاس کوفہ لیجانا چاہا، تو آپؓ نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ سیدنا حسین ؓ کسی کماندار کے بجائے یزید کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنا چاہتے تھے۔ سیدنا حسین ؓ کی جرأت مند لیکن صلح جو طبیعت کا اس وقت پھر سے اعادہ اور اظہار ہوتا ہے، جب آپؓ اپنے مخالفین کے سامنے اپنی ان تین شرائط کو رکھتے ہیں جنہیں تقریباً تمام مؤرخین نے بیان کیا ہے:
۱۔ مجھے وہیں لوٹ جانے دو جہاں سے آیا ہوں۔
۲۔ مجھے خود یزید سے اپنا معاملہ طے کر لینے دو۔
۳۔ مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر بھیج دو، وہاں کے لوگوں پر جو گزرتی ہے، وہی مجھ پر بھی گزرے گی۔
خیر پر مبنی ان شرائط میں سے کسی ایک کو بھی نہیں مانا گیا۔ نتجتاً سیدنا حسینؓ اپنے جانثاروں اور جانبازوں سمیت میدان کربلا میں شہید ہوگئے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے تحریک خلافت کے زمانے میں مسئلہ خلافت پر جو تقریر کی تھی، کہا جاتا ہے کہ شیخ الاسلام، ابن تیمیہؒ کے بعد پہلی مرتبہ شہادت حسین ؓ کی متوازن تفہیم پیش کی گئی۔ آزاد مرحوم کے مطابق کربلا میں سیدنا حسینؓ کے سامنے دو ہی راستے موجود تھے: ’’یا اپنے تئیں مع اپنے اہل و عیال قید کرا دیں یا مردانہ وار لڑ کر شہید ہوں۔ شریعت نے کسی مسلمان کو مجبور نہیں کیا ہے کہ ناحق ظالموں کے ہاتھ اپنے تئیں قید کرادے۔ پس انہوں نے دوسری راہ کمال عزیمت دعوت کی اختیار کی اور خود فروشانہ لڑکر حالت مظلومی و مجبوری میں شہید ہوئے۔‘‘
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام میں اسلامک سٹیڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ ۔9858471965
[email protected]