شاہ محمد ماگر ے۔ڈوڈہ
جہاں مرکزی سرکار ملک کی تمام ریاستوں کی یکساں تعمیر و ترقی کے لیے منصوبے مرتب کرتی ہے وہیں ان منصوبوں کوزمینی سطح پر باعمل بنانے کے لیے ریاستی سرکار کے بعد ضلع انتظامیہ کابھی اہم کردار ہوتا ہے۔ یعنی ضلع انتظامیہ افسران کے تعاون کے بغیر مرکزی و ریاستی سرکار کے ترقیاتی منصوبے زمینی سطح پر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں نہ ہی تعمیر و ترقی ممکن ہے اور نہ ہی عوام بنیادی سہولت سے مستفید ہو سکتی ہے۔جموں کے ضلع ڈوڈہ کی تحصیل کاہرہ میں درمن ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کی آبادی لگ بھگ 3ہزار کے آس پاس ہے۔یہ علاقہ تحصیل ہیڈ کوارٹر سے 13کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔سڑک جیسی بنیادی سہولیات یہاں کے لوگوں کو نہ ہونا باعث مشکلات ہے۔
سماجی کارکن ندیم میر کہتے ہیں کہ’’سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہوکر کسی علاقے کی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی ہےاور اس جانب ضلع انتظامیہ کا کرداربہت اہم ہو جاتا ہے۔ افسران کو مقامی عوام کی تکلیف کو سمجھنا چاہئے اور سڑک کا کام جلد شروع کرانی چاہئے۔‘‘وہ بتاتے ہیں کہ ضلع ڈوڈہ کے تحصیل کاہرہ کے پہاڑی علاقہ ٹانٹہ جن میں کشٹھواہ، کٹھل گنوڑی، درمن،وانی پورہ اورماگرے محلہ شامل ہے۔جہاں کی ایک بڑی آبادی ابھی بھی اس ڈیجیٹل دور میں بھی روڈ جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے کیونکہ یہ ایسا علاقہ ہے کہ جب موسم خراب ہو تاہے تو تین سے چارفٹ برف گرتی ہے۔ اگر کوئی بیمار پڑ جاتا ہے تو اس کو چارپائی پر اٹھا کر ہسپتال لے جانا پڑتا ہےاور سڑک نہ ہونے وجہ سے زیادہ تر بیمار راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے اور آج تک بہت سے معصوم بچوں، حاملہ عورتوں اور بیمار بزرگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔
اس سلسلے میں مقامی سماجی کارکن سجاد احمد کہتے ہیں کہ’’ایک نظر خطہ چناب کے پہاڑی علاقوں پر ڈالیں گے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں شہروں کے مقابلے گاؤں، دیہات اور بالائی علاقہ جات میں دور دور تک تعمیر و ترقی کا نام و نشان منفی دکھائی دے رہا ہے۔اگرچہ کئی مقامات پر تعمیری کام شروع کیا گیا ہے لیکن وہ گذشتہ کئی سالوں سے مختلف وجوہات کی بناء پر وقت پر مکمل نہیں ہو سکا ہے۔اس کی وجہ سے ضلع ڈوڈہ کے بالائی علاقہ جات جس میں ٹانٹہ درمن کی عوام بھی شامل ہے،اس ترقی یافتہ دور میں بھی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔‘‘سجاد احمدکہتے ہیں’’اگر ہم جموں وکشمیر کے ضلع ڈوڈہ کے تحصیل کاہرہ کی بات کریں تو تحصیل ہیڈکواٹر سے چند ہی کلومیٹر دور گاؤں ٹانٹہ درمن واقع ہے۔اس گاؤں میں سڑک کا کوئی نام و نشان نہیں ۔جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ضروریات زندگی کا سامان اپنے کندھوں پر اٹھا کر میلو پیدل سفر طے کرتے ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو جائے تو مریض کو چارپائی پر اٹھانے اور گاڑیوں کی آمدورفت والی سڑک تک پہنچانے کے لیے آٹھ سے دس آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات مریض کو بروقت طبی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے راستے میں ہی موت ہو جاتی ہے۔گاؤں میں ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔‘‘ٹانٹہ سے ہی تعلق رکھنے والی 21سالہ رخسانہ کوثرکالج کی طالبہ ہے، وہ کہتی ہیں کہ’’ایک طرف ہماری سرکارلڑکیوں کی تعلیم کے فروغ پر زور دیتی ہے لیکن زمینی سطح پر کوئی بھی اثر یا عمل دیکھنے کو نہیں ملتاہے۔ صرف اسکول کھول دینے سے ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی ہے بلکہ لڑکیوں کو ان اسکولوں تک پہنچنے کیلئے بہتر سڑک کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس کا یہاں فقدان ہے۔‘‘وہ کہتی ہے کہ ہمارے گاؤں میں سڑک کے بغیر انسانی زندگی کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔آنے جانے کا کوئی بہتر راستہ نہیں ہے۔ اس کا منفی اثر یہ ہو رہا ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کا اسکول جانا بند کرا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں ٹانٹہ درمن میں رہنے والی متعدد طالبات کو پڑھائی چھوڑنی پڑی ہے۔رخسانہ کوثر نے مزید بتایا کہ سڑک کی کمی کی وجہ سے صرف لڑکیوں کی تعلیم پر ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ جب کوئی حاملہ عورت بیمار ہو جاتی ہے تو اسے چارپائی پر اٹھاکر لانا اور لے جانا کسی عذاب سے کم نہیں۔ ان تمام معاملات اور مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے گاؤں کے متعدد ذر معاش والے افراد گاؤں چھوڑ کر دوسری جگہوں پر منتقل ہونے پر مجبورہو رہے ہیں۔ لیکن جو غریب لوگ ہیں ،مزدور پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں، اسی گاؤں میں ہی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔اس حوالے سے گاؤں کے ایک بزرگ محمد یاسین کہتے ہیں کہ ٹانٹہ سے سات کلومیٹر دور سڑک کا کام پانچ سال سے روکا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے مقامی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں گاؤں والوں نے کئی بار محکمہ کے افسروں سے بات کی لیکن ابھی تک سڑک کا کام شروع نہیں ہو سکاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر علاقہ میں سڑک جیسی بنیادی سہولت نہیں ہوگی تو ترقی ہونا مشکل ہے۔ ایس ڈی ایم ٹھاٹھری مسعود بچھو نے انتظامہ کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹانٹہ سے درمن جانے والی روڈ کا کچھ حصہ محکمہ جنگلات کے تحت آتاہے۔ جس سے اجازت ملتے ہی وہاں کے لیے روڈ کا کام شروع کیا جائے گا اور جو دوسری روڈ ٹانٹہ سے کٹھل کشیٹھواہ کے لیے ہے ،اس پر بھی جلد کام لگ جائے گا۔ ایس ڈی ایم ٹھاٹھری نے کہا کہ محکمہ کو لوگوں کی پریشانی کا احساس ہے۔ ان سڑکوں کا کام جلدی شروع کیا جائے گا جس سے لوگوں کو مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ محکمہ کو لوگوں کی پریشانی کا احساس ہے۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ دن کب آئے گاجب درمن کی عوام کو سڑک جیسی بنیادی سہولت ملے گی؟
(چرخہ فیچرس)