حافظ میر ابراہیم سلفی
مخلص اور باوفا ساتھی اس سورج کی طرح ہوتا ہے جو آپ کی زندگی میں غموں کے بادل ہٹانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔مخلص ساتھی آپ کی زندگی کا اندھیرا دور کرنے ،آپ کی اندرونی کمزوریوں کو جان کر انہیں دوا دینے کا کام کرتا ہے۔ مخلص ساتھی اللہ کی ایک عظیم ترین نعمت ہے ۔ارسطو نے حقیقی ساتھی کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ ’’محبت یہ ہے کہ ایک روح دو جسموں میں موجود ہو۔‘‘آپ کی خوشی میں خوش ہونے والا ،آپ کے درد میں تڑپنے والا ،آپ کے بکھرے وجود کو سمیٹنے والا مخلص ساتھی ہی کرسکتا ہے ۔دوستی کی بنیاد حسب و نسب ،مال و دولت دیکھ کر نہیں رکھی جاتی بلکہ دوستی تو تبادلہ جذبات کا نام ہے ،تبادلہ احساسات کا نام ہے۔جو آپ کی خاموشی کو جان سکے ،جو آپ کی آنکھوں کو پڑھ سکے ،جو آپ کے سکون قلب کا ذریعہ بنے ،حقیقی دوست کہلاتا ہے ۔اہل قلم لکھتے ہیں کہ ’’دوست وہ ہے جو دوستی کا حق دوست کی غیرموجودگی میں بھی ادا کرے اور غیروں کی محفل میں اسکی عزت اور مقام کی حفاظت کرے‘‘۔ایک مخلص ساتھی آپ کے باطن کو سنوارنے کا کام کرتا ہے۔منفی پہلوؤں کو مثبت پہلوؤں میں تبدیل کرنے کا کام دیتا ہے۔ جبکہ آج کے حالات اسکے برعکس ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ آپ کے جان نثار صحابہ کی قربانیوں سے پر ہے۔ربّ العزت نے قرآن کے متعدد مقامات پر صحابہ کرام کی قربانیوں کا تذکرہ کیا ۔مخلص ساتھی دیکھنے ہوں تو آل یاسر کو دیکھئے کہ جنہوں نے اپنی وفا کے ثبوت میں اپنی جانوں کو ٹکڑوں میں بٹنا قبول کرلیا ۔بلال و خباب کو دیکھئے کہ جن کے وجود مقدس پر آگ کے شعلے برسائے گئے ۔بدری صحابہ پر نظر ڈالئے کہ نازک حالات میں اپنے جان و مال کو نبی کریمؐ کے قدموں پر نچھاور کردیا اور کہا ،’’یا رسول اللہؐ، ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپؐ کے برحق ہونے کی تصدیق کی ہے ، ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ جو تعلیم آپ ؐلے کر آئے ہیں وہ سچی تعلیم ہے اور اس پر کاربند رہنے اور آ پؐ کی اطاعت کرنے پر ہم نے آپؐ سے عہدوپیمان کئے ہوئے ہیں، اس لئے آپ ؐ جو کرنا چاہتے ہیں کریں، ہمیشہ آپؐ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ بھیجاہے کہ اگر آپ ہمیں اپنے ساتھ اس سمندر میں بھی کودنے کوکہیں گے تو ہم میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو سمند ر کی لہروں کا سینہ چیر کر آپؐ کے ساتھ نہ ہولے۔ اے رسول خداؐ! آپ کا ہمیں دشمن کے سامنے لاکھڑا کرنا ہمیں ہرگز ناگوار نہیں گزرا، ہم توجنگوں میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قوم ہیں اور شاید اب وہ وقت بہت قریب ہے جبکہ خدا تعالیٰ آپؐ کو ہماری طرف سے فدائیت کے وہ نظارے دکھلا دے گا، جس سے آپ ؐکی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی‘‘۔ حضرت سعدؓ کی اس پرایمان اور پرجوش تقریر کو سن کر حضورؐ بہت خوش ہوئے۔(سیرت ابن ہشام) یہ وفاداری کی اعلیٰ صفت اور اعلیٰ معیار ہے۔اہل بیت اطہار کی قربانیاں کسی سے مخفی نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ قربانیوں کا دوسرا نام سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام ہیں۔جنت کے سرداروں نے اپنے بابا سے وفاداری کے لئے اپنے مبارک وجود کو بطور نظرانہ پیش کیا۔دوستی میں منفعت نہیں دیکھی جاتی ،سیاست نہیں کی جاتی ،خودغرضی سے کام نہیں لیا جاتا۔
طلب مال اور حرص مال نے رشتوں کی حقیقت سے ہمیں محروم کردیا ہے ۔حالانکہ عصر حاضر میں بھی مخلص ساتھی ملنا مشکل نہیں لیکن بات نصیب کی ہے۔کیونکہ مخلص ساتھی کمائے نہیں جاتے بلکہ مقدر سے ملتے ہیں ۔دعاؤں کی کثرت ،دل کی تڑپ سے ملتے ہیں ۔ایک مفکر سے کسی نے پوچھا دوست اور بھائی میں کیا فرق ہے ؟ تو فرمایا بھائی سونا ہے اور دوست ہیرا ہے ۔اُس شخص نے پھر پوچھا حضرت آپ نے بھائی کو کم قیمت بنا دیا اور دوست کے بیش قیمت ایسا کیوں؟ پھر آپ نے فرمایا کہ اگر سونا ٹوٹ بھی جائے تب بھی اُسے پگھلا کر دوبارہ ویسی ہی شکل میں لا جا سکتا مگر ہیرے میں معمولی سی دراڑ بھی پڑھ جائے تو بھی وہ پہلے والی حالات میں نہیں آ سکتا۔
دوستی ایک ایسا انمول رشتہ ہے، جس میں سارے رشتے ڈھل جاتے ہیں ۔آپ جو معمولات اپنے والدین ،بھائی،بہن ،رشتےدار سے نہیں کہہ سکتے ،وہ معمولات اپنے دوست سے کہہ دیتے ہیں چاہے وہ راز کی باتیں ہی کیوں نہ ہوں۔
ایک سچا دوست آئینہ کی طرح ہوتا ہے جس میں آپ خود کو دیکھتے ہیں،اگر آپ کے دوست اچھے ہیں اور آپ میں کوئی کمی ہے تب بھی لوگ آپ کو اچھا ہی جانتے ہیں اور اگر آپ اچھے ہیں اور آپ کے دوست بُرے ہیں تو آپ ہی بُرے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے’’ جیسی سنگت ویسا پھل ‘‘ اس لئے اپنے دوست سوچ سمجھ کر بنانے چاہیے ۔
ایک دوست دوسرے دوست سے کہتا ہے کہ ،’’جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اس پر دنیا ہنستی ہے،جس کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اس پر دنیا جلتی ہے اور میرے پاس تمہارے جیسا دوست ہے جس کے لئے دنیا ترستی ہے ‘‘۔ دوست آپ کی خلوت میں آپ کا ہمسر ہوتا ہے، اسی لئے یہ رشتہ بڑا ہی نازک ہوتا ہے ۔منشیات کے سیلاب میں ،برائیوں کے انجمن میں ،فحاشی اور عریانی کے مراکز میں جانے سے جو چیز آپ کو مانع ہے، وہ ہے ایک باوفا اور مخلص ساتھی ۔دینی معاملات ہو یا دنیوی مسائل ،نیک ساتھی آپکے لئے قائد اور رہنما کے منصب پر ہوتا ہے ۔اسی کئے نبی کریمؐ کا فرمان ہے کہ ،’’ آدمی اپنے دوست کے دِین اور اس کے طور طریق پر ہوتاہے، لہٰذا ضروری ہے کہ تم دیکھوکہ کس سے دوستی رکھتےہو۔‘‘(مسند احمد)فرمایا ،’’اچھے بُرے ساتھی کی مثال مُشک کے اُٹھانے اور بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے، مُشک اُٹھانے والا یا تو تجھے ویسے ہی دے گا یا تُو اس سے کچھ خرید لے گا اور یا تُو اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی دھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلادے گایا تُواس سےبدبو پائےگا۔‘‘(صحیح مسلم) سلف صالحین بیان کرتے ہیں کہ ،’’اچھا ہمنشین وہ ہے کہ اس کے دیکھنے سے تمہیں خدا یاد آئے اور اس کی گفتگو سے تمہارے عمل میں زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے‘‘۔اچھے دوست کی ہم نشینی نہ صرف دنیامیں سُودمندہوتی ہےبلکہ قبرمیں بھی نیکوکارکی صحبت فائدہ پہنچاتی ہے۔ مخلص دوست دواء شافی کی طرح زخموں کا مرہم کرتا ہے ۔بس یہ یاد رہے کبھی یہ فریضہ کوئی اور ادا کررہا ہوگا، آپ کے لئے تو کبھی آپ کو ادا کرنا ہوگا کسی کے لئے۔
[email protected]