غازی سہیل خان ۔ بارہمولہ
چند ماہ پہلے’’ سُرودِرفتہ‘‘ ـ نام کی ایک کتاب فیس بُک پہ نظروں سے گُزری کتاب کا سرورق دیکھتے ہی کتاب کو پڑھنے کی خواہش جاگ گئی ۔ جب کتاب پہ مصنف کا نام پڑھا تو کتاب کو پڑھنے کی تڑپ شدید ہونے لگی۔ ابھی کتاب خرید کے پڑھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ یہ خوبصورت سی کتاب مجھے میرے عزیر عمر فاروق کی وساطت سے مصنف کی طرف سے تحفے میں مل گئی ۔الحمداللہ ۔
کتاب کو لکھنے والے کا تعلق کشمیر کے ایک ایسے ضلع سے ہے جس کی پہچان ہی علم ،ادب و آب ہے ۔ جس کی ایک خوبصورت مثال مصنف موصوف جناب غلام محمد وانی صاحب نے اس کتاب کو لکھتے ہوئے پیش کی ہے ۔محترم وانی صاحب ایک بزرگ ،استاد ،مربی ،داعی ِ حق ،اقامت دین کے شیدائی اور علمی و عملی شخصیت کے بطور وادی کے لوگوں میں مشہور ہیں۔اس سے پہلے ایک شعری مجموعہ کشمیری زبان میں’’ لل ون دود ‘‘کے نام سے شایع ہو چُکاہے ،زیر تبصرہ کتاب ’’سرودِ رفتہ ‘‘اُن کے ذاتی مشاہدات ،تجربات اُن کی زندگی کی تلخ و شیرین یادوں کا ایک مختصر لیکن جامع گلدستہ ہے ۔مذکورہ کتاب چار حصوں ( مشاہدات ،نقوشِ تاباں،راہِ حق کی یادیں اور صحابیات ) پر مشتمل ہے ۔کتاب ۲۷۸ ؍صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ،کتاب کے انتساب میں لکھتے ہیں کہ ’’اپنے مرحوم والدین اور اُن سب کے نام جن کے دل خشیت الہٰی ،محبت ِ رُسول ؐ اور خلقِ خُدا کے جذبۂ خدمت سے لبریز ہیں‘‘۔کتاب کا نام علامہ محمد اقبال ؒ کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ’’ ماضی کا گیت یا ماضی کی خوش کُن یادیں ‘‘ہے ۔یعنی مذکورہ کتاب میں مصنف موصوف نے اپنی ماضی کی یادوں کو صفحہ قرطاس پر بکھیر کے ہمارے لئے نصیحت کا سامان فراہم کیا ہے ۔کتاب میں مصنف موصوف نے اپنی زندگی کے رنگا رنگ واقعات کو بڑی ہی خوبصورتی سے پیش کیا ہے ۔زبان انتہائی سلیس اور سادہ استعمال کی گئی ہے قاری کو ایک واقعہ پڑھنے کے بعد اگلے صفحے کو پڑھنے کی چاہ پڑھ جاتی ہے ۔میں نے ذاتی طور یہ محسوس کیا کہ کتاب میں جو بھی واقعات شامل ہیں انہیں انتہائی مخلصانہ اور بغیر کسی تصنع کے پیش کیا گیا ہے۔ماضی کے واقعات کو ایسے رقم کیا ہے ایک قاری چند لمحات کے لئے اُسی دور میں چلا جاتا ہے ۔بلکہ چند جگہوںپہ تو واقعات ایک فلم کی طرح آنکھوں سے سامنے چلنے لگتی ہے ۔ہر واقعہ کو مختصر لیکن خوبصورت سا عنوان دیا گیاہے مثلاً ،نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ،رفیق زندان امیر حمزہ ،الہٰی یہ ماجرا کیا ہے،اس حمام میں سب ننگے ہیں ،خاصانِ خُدا کی ادائیں وغیرہ ۔چوں کہ مصنف موصوف جماعت اسلامی جموں کشمیر سے وابستہ ہیں اور اہم ذمہ داریوں کو بھی نبھایا بھی ہے۔ جماعت اسلامی میں ایک اصطلاح ’’ موعودہ ‘‘نام سے اہم اور مشہور ہے جس سے جماعت کو چلانے کے لئے ماہانہ بنیادوں پہ پیسے جمع کیے جاتے ہیں اور اس مد کے تحت جماعت کے ہر رُکن پر لازم ہوتا ہے کہ نظم کی طرف سے تفویض کردہ رقم ماہانہ ادا کی جائے ۔لکھتے ہیں کہ ’’مرحوم گیلانی صاحب نے ایک بار چند ماہ سے اپنا’’ موعودہ ‘‘ادا نہیں کیا تھا اور ذمہ داروں نے یہ فیصلہ لیا کہ گیلانی صاحب کے گھر جا کے موعودہ وُصول کیا جائے گھر جا کے گیلانی صاحب نے کچھ مجبوریوں کا بتا کے یہ جواب دیا کہ ’’اس وقت میرے پاس نقدی موجود نہیں ہے البتہ ایک بچھڑا ہے ۔اسے آپ فروخت کریں تاکہ اس طرح سے میرا موعودہ وصول ہو جائے ۔ہم نے بچھڑا لیا اور اسے مقامی ذمہ داروں کے حوالے کیا۔اسے فروخت کر کے قبلہ مرحوم گیلانی صاحب کو موعودہ کی رسید اجرا کی گئی ‘‘(ص ۸۸)
اسی طرح سے ۴ ؍اپریل ۱۹۷۹ء میں پاکستان میں ذوالفقار علی بٹھو کو پھانسی دی گئی جس کی تار و ں کو و ہاں سے یہاں جماعت اسلامی سے جوڑ دیا گیا اس میں جموں کشمیر کا ایک خاص مذہبی طبقہ تیر و کمان لے کے جماعت اسلامی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے میدان کار زار میں دیوانہ وار کود پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے جماعت سے وابستہ درجنوں آشیانوںکو کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے پھونک دیا گیا ،ہزاروں کنال باغات کو بڑی ہی بے رحمی سے کاٹ دیا گیا ،کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے نسخوں کو بھی ثواب جان کے نذر آتش کر کے نالیوں میں پھینکا گیا ،یہ ساراطوفان بدتمیزی اسلام کے نام پر انجام دیا گیا ۔اُسی قیامت ِ صغرا کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ ’’چار اپریل 1979ء کو ہمارا ایک ہمسایہ ہمارے آنگن میں آ کر ہمارے مکان کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔میرے بڑے بھائی حسرت سے اُن سے پوچھتے ہیں کہ تم کیا دیکھتے ہو ؟ اس شخص نے لاگ لپیٹ کے بغیر صاف لفظوں میں بتا دیا ’’ تمہارے اس مکان کو نذر آتش کرنا ہے۔ لیکن ہمارے رشتہ دار کا مکان نزدیک ہونے کی وجہ سے ان کا گھر بھی آ گ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے اس لئے جائزہ لے رہا ہوں کہ تمہارے مکان کو کیسے مسمار کیا جائے ‘‘۔(ص ۱۰۵) اسی قسم کے واقعات کتاب میں درجنوں ہیں جن کو پڑھ کے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔وہیں چندایسے واقعات بھی درج ہیں جو ہمارے لئے باعث خوشی ،مسرت اور راہنمائی کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں ۔اسی طرح سے جیل کی تلخ و شیرین یادوں کے ساتھ ساتھ اپنی تحریکی زندگی کو بھی ایک قاری کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب میں وانی صاحب کی زندگی کے گوشتے پڑھنے کو تو ملتے ہی ہیں لیکن اس میں تاریخ کے کھٹے میٹھے واقعات سے ہمیں سبق بھی لینا ہوگا ۔’ ـحرف چند‘ میں جناب شبیر احمد لون لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک ایسی عینی، محسوساتی ،واقعاتی ،تجرباتی اور روحانی رودادِ زماں ہے کہ جس میں ایسے اشخاص کے خاکے ،تذکرے اور انشائیے قلمبند کیے گئے ہیں کہ جن میں کچھ گمنام ہیں تو کچھ معروف و مقبول ،جو خِزان دیدہ میں رودادِ بہاراں کا سامان یقینی طور پیش کرتے ہیں ۔ان میں انفرادی اور اجتماعی امنگوں ،حسرتوں ،آرزوئوں ،نالہ و چیرہ دستیوں اور کشا کش کا اظہار ہے ۔(ص ۱۹)
مجموعی طوروانی صاحب کی یہ کتاب خوبصورت اور مخلصانہ تصنیف ہے جو نئی نسل کے لئے نشان راہ بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔تاہم کتاب میں چند خامیاں بھی در آئی ہیں جن کی میں نشاندہی کرنے کی جسارت کرنے جا رہا ہوں اور اس کے لئے میں مصنف موصوف اور دیگر متعلقہ افراد سے پیشگی معذرت بھی کرتا ہوں ۔پہلا یہ کہ کتاب کا نام یا عنوان جس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ اس میں مصنف نے اپنے تاریخی واقعات کو ضبط تحریرمیں لایا ہے ،لیکں کتاب کے آخر میں کچھ ایسے مضامین اور واقعات درج ہیں جو نفس مضمون سے میل نہیں کھاتے اور کتاب کے عنوان سے متضاد ہیں جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔میں ابھی بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ صحابیات کا ذکر اس کتاب میں کیسے، کیوں اور کس مقصد کے تحت شامل کیا گیا ہے ؟ اسی طرح سے مجھے تب حیرانی ہوئی جب مصنف موصوف نے خان ذات کے لوگوں کو گوجر برادری میں شمار کیا ہے ،جیسے ایک جگہ’’ رشید خان ‘‘کو گوجر برادری سے وابستہ کیا گیا ہے، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خان ذات کے لوگ پہاڑی ہو سکتے ہیں، گوجر کسی صورت میں نہیں ہو سکتے ،شاید مصنف موصوف کو اس حوالے سے کوئی کنفیوژن ہو جس کے سبب تحریر میں بھی یہ دور نہیں ہو سکی ،بہتر تھا کہ پہلے اس کے متعلق جانکاری حاصل کی جاتی ۔ویسے بھی کشمیر میں یہ غلط العام ہی ہے جس میںپہاڑی ،پنجابی ،ڈوگری وغیرہ بولنے والوں کو بھی چند لوگ گوجر ہی کہتے ہیں ۔وہیں کتاب میں چند جگہوں پر تصوف کے متعلق بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے جو اچھی بات تھی لیکن اکثر واقعات حوالہ جات کے بغیر ہی ہیں ،جس سے کوئی بھی پڑھا لکھا جوان اختلاف کر سکتا ہے ۔ بغیر حوالے کوئی واقعہ یا بات لکھنا اپنے اثر کو بہت کم کر دیتا ہے اور ایسے واقعات کسی بھی قاری کے ذہن پر بھی کوئی اچھا اثر نہیں چھوڑتے ۔اسی طرح سے کتاب میں املا اور تذکیر و تانیث کی کچھ غلطیاں بھی در آئی ہیں لگتا ہے کتاب کو بہت جلدی میں شایع کرنے کی کوشش کی ہے وہیں واقعات میں ربط و تسلسل کی خاصی کمی بھی دیکھنے کو ،ملی جس سے قاری اُکتاہٹ کا شکار ہو سکتا ہے ۔میں چاہوں گا کہ میری ان گستاخانہ باتوں کا نوٹس لے کر مصنف موصوف اگلے ایڈیشن میں ان چیزوں پر نظر ثانی فرمائیں اور مجھے اُمید بھی ہے کہ ایسا ہی ہوگا بلکہ چند اور بھی واقعات کو شامل کتاب کیا جاتا تو اور بہتر تھا۔
(رابطہ :۔7006715103)