دین کی نشرو اشاعت، تذکیر اور نصیحت کی غرض سے آیاتِ قرانیہ، احادیثِ مبارکہ، اور دینی پیغام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، تاہم اس میں تین باتوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے
(1) مذکورہ پیغامات معتبر اور مستند ہوں، کیوںکہ بہت سے لوگ دین کے نام پر شعوری یا لاشعوری طورپر غلط باتیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں، اس لیے تحقیق اور تسلی کے بغیر مذکورہ پیغامات نہ بھیجے جائیں، خاص کر جب وہ قرآنِ مجید یا حدیثِ مبارک کی طرف منسوب ہوں۔
(2) قرآن مجید کی آیات کو اس کے عربی رسم الخط (رسمِ عثمانی ) میں لکھاجائے، اس لیے کہ قرآنِ کریم کی کتابت میں رسمِ عثمانی (جوکہ عام قرآن کا رسم الخط ہے) کی اتباع واجب ہے، لہٰذا کسی اور رسم الخط میں قرآنی آیت لکھ کر پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے، البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جاسکتا ہے۔
(3) پیغام میں کسی جان دار کی تصویر نہ ہو، اسی طرح اگر صوتی پیغام ہے تو موسیقی اور جان دار کی تصویر سے پاک ہو۔
باقی مستند بات کسی پوسٹ کی صورت میں موصول ہو تو اسے ہر ایک تک پہنچانا واجب نہیں ہے، بلکہ موقع محل کے اعتبار سے اس کا حکم مختلف ہوگا، لہٰذا حکمت و تدبیر ملحوظ رکھ کر دین کی بات آگے پھیلائی جائے۔نیز یہ بھی واضح ہو کہ حدیث چوں کہ ہمارے دین کے علم کی اصل ہے اور اس کی نسبت نبی کریم ؐ کی طرف ہے، لہٰذا بغیر تحقیق کے اسے آگے پھیلانا درست نہیں ہے ، اور اگر نبی کریم ؐ کی طرف منسوب کوئی ایسی بات ہو جو واقعتاً حدیث نہ ہو، تو ایسی صورت میں آگے پھیلانے والے کے لیے احادیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔
حدیث مبارک میں آیا ہے’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے، وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنالے‘‘۔
اللہ پاک عمل کی توفیق عطا کرے
(طالب علم ایم اے عربی اسلامک یونیورسٹی اونتی پورہ کشمیر)
Email:[email protected]