اللہ تعالی نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان سب میں ایک بڑی نعمت زبان ہے۔ یہ ایسی نعت ہے جو انسان کو دوسرے مخلوقات سے الگ کرتی ہے۔ اس کے فوائد گننا مشکل ہے، مگر جب زبان کی غلط استعمال کے مضر اثرات کی بات کریں، تب یہی نعمت ،نہ صرف زحمت بلکہ بڑی ذلت ورُسوائی اور تباہی کا بھی سبب بن جاتی ہے۔اس لئے ایک انسان کے لئے لازم ہے کہ اس نعمت کو استعمال کرنے میں انتہائی ہوشیاری اوراحتیاط سے کام لے،جتنا ہوسکے،انسانیت کے اصولوں کےتحت اپنی زبان کا استعمال کر سکتا ہے۔ یہاں بعض اُنہی اصولوں کی بات ہوگی، جو بہت سارے فوائد کے حامل ہیں۔
پہلا اصول ہے کہ ضرورت کے وقت ہی بات کی جائے۔ بے جا اور بلا ضرورت باتیں کرنا بےوقوفی اور بےعزتی کا باعث بنتی ہیں۔ جب تک انسان اپنا منہ بند رکھتا ہے، تب تک وہ عاقلوں میں شمار ہوتا ہےاور جب اُس کا منہ کھلتا ہے تو اُس کے بول ہی اُسکی عقل کا پردہ فاش کردیتی ہے۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’زیادہ بات کرنے سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی چیز بُری نہیںاور جو کام سب سے زیادہ سببِ مغفرت ہوگا ،وہ شیریں بیانی اور کشادہ روی ہے‘‘۔
یاد رہے کہ نرم بات غصہ کو دباتی ہے اور کرخت باتیں غضب انگیز ہوتی ہیں۔بات کی کثرت میں کچھ نہ کچھ نقصان ضرور ہوگا مگر جو اپنے لبوں کو روکے رہتا ہے ،بڑا دانا ہوتا ہے ۔اُسے موقع مل جاتا ہے کہ سوچ سمجھ کر بات کر سکے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چیزوں کو جاننے کے لئے صرف آنکھوں کا مشاہدہ کافی نہیں ہوتا ہے۔ اس کے لئے دماغ، تحقیق اور بہت سارے عوامل کا عمل دخل ہوتا ہے۔ جو انسان زبان کو صرف بولنے کے لئے استعمال کرتا ہے، وہ کبھی بھی بول نہیں سکتا ہے۔ اس کے برعکس جس انسان کو کچھ بولنا ہوتا ہے،وہ زبان کے بغیر بھی بول سکتا ہے۔دوسرا ہےالفاظ کا طریقہ اور سلیقہ ۔انسان کے ہر بول میں اپنا اپنا طریقہ اور اپنا اپنا سلیقہ ہوتا ہےکہ جو بات بھی بولنی ہو،اس کا طریقہ معیاری ہواور سلیقہ یعنی انداز بہتر و خوشگوار ہو۔ظاہر ہے کہ اگر کوئی اچھی بات بھی تلخ یا خشک انداز اور غیر معیاری الفاظ میں کہی جاتی ہے تو اُس کا اُلٹا اثر پڑتا ہے۔اور سُننے والے پر اُس اچھی بات کا کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔اسی لئے دانا لوگ ہمیشہ حالات دیکھ کر ہی بات کرتے ہیں۔ جس کے اندر گہرائی اور دور اندیشی کا مادہ ہوتا ہے۔ دانائی سے بولنے کا مطلب ہے کہ سامعین کو دیکھ کر بولا جائے۔ اُن کی سوجھ بوجھ اورذہانت کے مطابق بات کی جائے۔ اُن کے مذہبی عقائد کو ذہن میں رکھ کر بات کی جائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لوگ اُتنا ہی سنتے ہیں، جتنا وہ پسند کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ اچھی سی اچھی بات بھی سُننا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ اُن کی ذہنی قوت اُس سے زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ زیادہ سے زیادہ سن سکتے ہیں۔اس لئے بات چیت میں اختصار سے کام لینا چاہئے ،کلام اتنا ہی مفید ہو،جتنا آسانی سے سُنا جاسکے ،طویل کلامی ،گفتگو کا کچھ حصہ ذہنوں سے ضائع کردیتی ہے۔ تیسرا ہے غصہ کی حالت میں نہ بولا جائے۔یہ سچ ہے کہ غصے کی حالت میں انسان مخلصانہ بات کرہی نہیں سکتا اور اگر کرے گا بھی تو اُس میں وضع قطع بہتر اور مناسب نہیں ہوگی ،جس کے نتیجہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک معمولی خطا بڑی سزا کا باعث بن جاتی ہے گویا لمحوں کی خطا صدیوںکی سزا کے مترادف بن جاتی ہے۔بلاشبہ غصہ انسان کی کمزوری ہے، اس سے اتنا زیادہ نقصان ہوسکتا ہے کہ قوموں کی قومیںتباہ ہوسکتی ہے۔ اس حالت میں بولے گئے بول دِلوں کو ہی نہیں، آنے والے کل کو بھی چیر کے رکھ دیتے ہیں۔ اصولوں کی دھجیاں تو غصہ کی حالت میں ہی اُڑ جاتی ہیں۔ چوتھا ہے: کیا میں بولنے کے قابل ہوں، کیا میں نے اتنا علم پڑھ لیا ہے کہ میں بولنے کے قابل ہوگیا ہوں۔ ظاہر ہے جب تک کوئی بات تیرے منہ میں بند ہے تب تک تُو اس کا مالک ہے اور جب زبان سے نکال چکے تو وہ تیری مالک ہوچکی۔اس لئے بات کو بولنے سے پہلے تولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لئے غیر ضروری بات کا جواب دینے سے زبان کو بند رکھ،چہ جائیکہ تو خود کوئی فضول بات کرے۔یاد رکھو ! ہر وقت بات میں نرمی اختیار کرو کیونکہ الفاظ کی نسبت لہجہ کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اس ذہانت سے انسان زبان روک لیتا ہے اور اگر وہ بولے ، تب اُس کی زبان میں تاثر پیدا ہوتی ہے۔ امن کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اب جب کہ ہر کوئی دوسری کی زبان درازی کا شکار ہو گیا ہے، تو ایسے میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم ضرورت کے وقت ہی زبان کا استعمال کریں۔ اپنے آپ میں برداشت کا مادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ فروعی مسائل پر زبان درازی کرنے سے بہتر ہے کہ بڑے اذہان کا مطالعہ کیا جائے۔ مذہب کی روشنی میں یہ احساس اپنے اندر پیدا کرے کہ زبان کا بےجا استعمال تباہی کا ہی سبب بن جاتا ہے۔ذرا غور کریں کہ بعض قومیں چُپ رہ کے ترقی کے مراحل طے کرچکی ہیںاور بعض قومیںخاموشی کے ساتھ پوری دنیا پر غالب ہوچکی ہیں۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو صرف زبان چلانا جانتے ہیں، مختلف مصیبتوں کو دعوت دیتے ہیں۔ یہ کام چند دنوں میں نہیں ہوسکتا ہے، مگر کوشش کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم خود سے اس کی شروعات کرسکتے ہیں۔ ہم اسی سماج میں رہتے ہیںاور سماجی اصولوں کا حصہ ہیں۔ جب میں خود سے شروعات کروں کہ میں وہی بولوں گا جو بولنے کے لائق ہے، تب آہستہ آہستہ یہ سماج امن کا گہوارہ بنتا جائےگا۔ لڑائیوں کا بہت حد تک قلع قمع ہو جائے گا۔ بچوں سے لے کر بزرگوں کو چاہیے کہ اپنی زبان کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ خود کے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے ہم ایک اچھا ماحول چھوڑ سکتے ہیں۔ آیئے عہد کریں کہ ہم اپنی زبانوں کا بہتر سے بہتر استعمال کریں۔
(مدرس حسینی پبلک اسکول ایچ ایم ٹی، زینہ کوٹ، سرینگر)
رابطہ۔7889346763