حسرت ظہور
کروٹ بدلتے ہی جاوید نے اد پھٹی رضائی کو نرم و نازک ہاتھوں سے اوپر کی اور سرک لیا جیسے کسی ڈر کے مارے اپنا منہ چھپانا چاہتا ہو۔ لیکن ماں کی ضعیف آواز نے جاوید کی چنچل خراٹوں کو روک لیا……. اٹھو بیٹا…….. جاوید…….. میرے لال………. اسکول جانے میں دیر ہو جائے گی۔ جاوید اسکول کا نام سنتے ہی محرومی کے کسی گہرے بھنور میں پھنس گیا اور انکھیں موندتے موندتے کمرے سے باہر آگیا۔
چائے کی پہلی چسکی کے ساتھ ہی جاوید دبے لفظوں میں ماں سے مخاطب ہوا۔
ماں۔۔۔میں آج اسکول نہیں جاں گا۔
نہیں میرے لال۔۔۔آپ کی پڑھائی میرا سپنا ہے۔۔۔اور۔۔۔جاوید نے ماں کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
لیکن ماں۔۔۔میرا فیس۔۔۔
میرے جگر……. میں نے رحیم چاچا سے کچھ روپے ادھار مانگے ہیں…… بس ایک دو دن میں آپ کے فیس کا انتظام ہو جائے گا۔ یہ الفاظ کہتے کہتے ماں کی آنکھوں میں آنسو کے موٹے موٹے قطرے موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ یوں ماں کی بے بسی نے جاوید کو اسکول کی راہ لینے پر مجبور کیا۔
جاوید ایک سرکاری سکول میں زیر تعلیم ہے۔ جہاں درجن پھر اساتذہ درس و تدریس پر مامور ہیں ۔ ان میں ایک قریشی صاحب بھی ہیں ۔ ذاتی رعب اور اثر رسوخ کی بنیاد پر اسکول میں انہی کا سکہ چلتا ہے۔ اس روز گھنٹی کی ٹھن ٹھن کے ساتھ ہی بچے دوڑتے بھاگتے صبح کی اسمبلی کے لیے جمع ہو گئے ۔ قطاروں میں بچوں کے کھلتے چہرے دیکھتے ہی بنتے تھے البتہ ایک قطار کے پیچھے جاوید سر لٹکائے کھڑا تھا ۔ حمد و ثنا کے بعد قریشی صاحب حسب عادت بچوں کے سامنے جلوہ افروز ہوئے تو ایثار اور ہمدردی کے موضوع پر بولنا شروع کیا…….. عزیز بچو……… انسان اللہ کی عظیم اور عمدہ مخلوق ہے۔ لیکن ہماری یہ عظمت تب تک بے معنی ہے۔ جب تک نہ ہم ایثار اور ہمدردی کا عملی نمونہ بن جائیں۔ عزیز بچو…… دنیا میں ایثار اور ہمدردی سے افضل کوئی اور کام نہیں ہے۔ اصل میں ہم سب کسی نہ کسی طرح سے ایک دوسرے کے ایثار اور مروت پر جی رہے ہیں۔ اگر ہم اس عمدہ صفت سے عاری ہو کر خوشحال سماج کا سوچیں تو یہ ناممکن ہے۔ یہ ایثار ہی ہے جس کے سبب سورج سے گرمی اور روشنی ملتی ہے، ندی نالے اور جھرنوں کے پانی کے خزانے بہم رکھتے ہیں۔ زمین پیڑ پودے اور وہ پیڑ پودے طرح طرح کے پھل پھول، میوے اور سبزیاں دیتے ہیں۔ تو پھر…………… میری آپ سے نصیحت ہے کہ زندگی میں جب کبھی بھی آپ کوئی نیک اور عمدہ کام کرنے کا ارادہ کرو گے تو تب ان لوگوں کے کام آنا جو مشکلات میں ہوں اور جنہیں آپ کی ضرورت ہو……. شکریہ۔ بچوں نے زوردار تالیاں بجائیں اور قریشی صاحب کو یہ احساس ہوا کہ آج ان کی تقریر بے حد شاندار اور معلمانہ رہی ۔اسی لئے بچے تو بچے دوسرے اساتذہ بھی لفظ لفظ پر داد دیتے رہے۔ قریشی صاحب نے پینٹ کی جیب سے رومال نکال کر سوکھے ہونٹ اور شرابور چہرہ صاف کر کے دوسرا مدعا اٹھایا۔ بھرا ہوا گلا صاف کرتے ہوئے۔۔۔۔
بچو…… میں نے اسکول کا سالانہ فیس لانے کے لئے تمہیں آج تک کی مہلت دی تھی۔ اب جن بچوں نے فیس ابھی تک ادا نہیں کیا ہے وہ فوراً کھڑے ہو جائیں۔قریشی صاحب کے ان الفاظ سے بچے سہم گئے اور ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ وہ پچھلی سوموار کو کہاں بھولے تھے جب درجن بھر بچوں کو اس وجہ سے قریشی صاحب کی مار جھیلنی پڑی تھی۔ جاوید جو ایثار اور ہمدردی کے فلسفے سے بے حد محظوظ ہوا تھا قریشی صاحب کا حکم سنتے سکتے میں آگیا۔ اس پر مصیبت یہ کہ اپنے آپ کو اکیلا کھڑا پا کر وہ پوری طرح سے سُن ہو گیا۔ دوسری اور قریشی صاحب بھی آہستہ آہستہ جاوید کی اور قدم بڑھانے لگے۔
قریشی صاحب….. جاوید آپ نے آج بھی فیس نہیں لایا ہے….. آج کون سا نیا بہانہ ہے…… یہ سرکاری سکول ہے ….. کوئی یتیم خانہ نہیں۔…… جاوید سر جھکائے شرمندگی کے بوجھ سے تربہ تر ہو رہا تھا۔ گھر کی کمزور مالی حالت پر وہ اندر ہی اندر خجالت محسوس کر رہا تھا اور قریشی صاحب کا ایک ایک لفظ اسے چیرتا گیا۔قریشی صاحب نے اپنا دایاں ہاتھ جاوید کی اور بڑھایا، بالوں کو زور سے کھینچ لیا جیسے بکرا اب پوری طرح سے خنجر کے نیچے آگیا ہو۔ دو چار لاتوں اور گھونسوں کے بعد جاوید کو یہ حکم ملا کہ وہ بستہ اٹھا کے اسکول سے چلا جائے ۔ اور اسے فیس ادا کیے بغیر اسکول میں آنے کی اجازت نہیں۔ نیم جان جاوید نے اگرچہ کچھ کہنے کی کوشش بھی کی لیکن زبان شل ہوئی اور حلق سوکھ گیا۔ بے بس جاوید بستہ اٹھانے پر مجبور ہوا اور بوجھل قدموں سے گھر پہنچ گیا۔ بستے کو ماں کے قدموں میں رکھ کر زار و قطار رونے لگا۔ ماں کو سارا دکھڑا سنایا اور اپنے مرحوم باپ کی قسم کھا کر دوبارہ اسکول نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ ماں کی لاکھ منت سماجت جب کوئی رنگ نہ لائی تو جاوید نے مزدوری پر جانے کا فیصلہ کر کے دکھیاری ماں کے لیے امید کا چراغ روشن کیا۔
جاوید کا بچپن آہوں اور سسکیوں کی نذر ہو گیا ۔ اس نے کبھی بھی اندر کی ٹیس کو بے بس ماں کے سامنے ظاہر نہیں کیا۔ لیکن ماں بچوں سے بے خبر کہاں رہتی۔ وہ اپنے تینوں بچوں کے لئے بے حد فکر مند تھی۔ پہلے جوانی کو شریک حیات کے فوت ہونے سے دیمک لگ گئی اور اب گھر گرہستی کی گاڑی کو کھینچتے کھینچتے سینے میں درد کی مدہم لہریں بھی اٹھنے لگیں۔ جب علاج نہ ہوا تو مرض کی شدت میں اور بھی تلخی آ گئی ۔ جوانی کی ساری ترقی تمام ہو گئی۔ اگرچہ جاوید نے کئی بار ماں کو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا اصرار بھی کیا لیکن ماں علاج کے خرچے کا اضافی بوجھ جاوید کے معصوم کندھوں پر ڈالنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئی۔
دن بھر کی تھکاوٹ سے چور جاوید ایک کمرے میں لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا لیکن دوسرے کمرے میں اس کی ماں درد کی انتہا کو دانتوں تلے دبانے کی ناکام کوششیں کر رہی تھی۔ دو بیٹیاں جو ماں کے پہلو میں ہی سونے کی عادی تھیں درد سے کراہتی ماں کے حوصلے بڑھاتی رہیں لیکن آخر کب تک ۔ایک فریاد بھری چیخ نے گویا ارتعاش پیدا کیا۔ ماں کی درد بھری چیخ سے جاوید حواس باختہ ہوا اور وہ فورا ماں کو دیکھنے کے لیے آیا۔ ماں….. کیا بات ہے….. آپ کے آنسو…. نہیں ماں…… میں……. میں…….
میرے لال…… مجھ سے اب یہ مرض برداشت نہیں ہو رہا ہے…… بیٹے…… میں…… میں….. ان ٹوٹے الفاظ کو دہراتے دہراتے ہی دکھیاری پر غشی طاری ہوئی۔
صبح مریضہ نے آنکھ کھولی تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ شہر کے کسی سرکاری ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ بیڈ کی دائیں جانب ایک نرس مریضہ کے فیرن کا آستین اٹھائے بازوں سے کچھ چھیڑ چھاڑ کر رہی ہے اور بائیں جانب کچھ دور اس کا لخت جگر اپنے مرحوم والد کے جگری دوست رحیم چاچا اور اس کی بیوی مغلی آپا کے ساتھ سر لٹکائے کچھ سرگوشیاں کر رہا ہے۔ مریضہ کی نیم وا آنکھوں سے آنسوئوں کے موٹے موٹے قطرے ایسے بے حساب ٹپکنے لگے جیسے ابھی ابھی نہلا کے آئی ہو۔ ڈاکٹروں نے ابتدائی جانچ کے بعد جاوید سے کہا کہ مریضہ کا قلبی روگ اب لاعلاج ہے۔ اب دوا کی نہیں بلکہ دعائوں کی ضرورت ہے۔ البتہ مریضہ کو کچھ دنوں کے لئے ہسپتال میں رکھنے کی صلاح دی۔ دو دن رحیم چاچا اور مغلی آپا نے ہسپتال میں جاوید کے ساتھ رہ کر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا دیا لیکن یہ آسرا بھی جلد ٹوٹ گیا۔ دونوں کو جاوید کی بہنوں کی دیکھ ریکھ کے لئے گھر واپس جانا پڑا۔ اس لیے آج رات بھر وارڈ میں جاوید تنہا ماں کے بپھرتے ہونٹوں اور ڈوبتی سانسوں کو محسوس کرتا رہا۔ وہ رات بھر ماں کے بغل میں ایسے سر چھپائے تلملاتا رہا جیسے کسی بات پر ماں سے روٹھا ہو اور اب ماں کے منانے کے انتظار میں ہے۔ دوسری اور بیڈ پر لیٹی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا دکھیاری ماں اپنے لخت جگر کی اضطرابی کیفیت سے پریشان اللہ سے یہ التجا کرتی رہی کہ میرے لخت جگر کو زندگی میں صبر اور سکون نصیب ہو۔ صبح پو پھٹتے ہی جاوید کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اسے سہلایا اور بہنوں کی ذمہ داری کا احساس دلاتے دلاتے آخری ہچکی لی ۔
جاوید کی امیدوں کا روشن دیا بجھ گیا۔ چاروں اور مہیب سائے منڈلانے لگے…… ماں…… ماں…. ماں…… مجھے چھوڑ کر مت جا…… جاوید کی گریہ زاری سے بیڈ کے آس پاس کچھ غیر شناسا لوگ جمع ہو گئے۔ ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے جاوید کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا بیٹا صبر سے کام لو۔ ہم میت کو آپ کے گھر تک لے جانے میں ضرور تمہاری مدد کریں گے۔
جاوید نے لاش کے بکھرے بالوں کو سنبھال کر اسے گلے لگایا۔ پیچھے سے سفید گاون میں ملبوس ایک سرکاری ملازم نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے کہا ۔ بیٹا کچھ لوازمات پورے کرنے کے لئے آپ میرے ساتھ آئیے اور چند ہی لمحوں میں جاوید اپنی ہیجان زدہ کیفیت کو دانتوں تلے دبا کر اس شخص کے پیچھے پیچھے وارڈ سے باہر آگیا۔ دونوں بڑے صاحب کے کمرے میں داخل ہو گئے جہاں ضروری کاغذات پر جاوید کے دستخط لئے گئے اور وہ کمرے سے واپس نکلا۔ لیکن ہسپتال کے صحن میں لوگوں کی چیخ و پکار ایمبولنس گاڑیوں کی ٹھن ٹھن اور ہٹو ہٹو جیسے الفاظ نے جاوید کے سہمے وجود میں اور بھی تندی پیدا کر دی۔ وہ انتہائی پھرتی سے باہر آگیا جہاں انسانی کندھوں پر سڑک کے ایک دلدوز حادثے میں زخمی ہوئے بیسیوں مرد و زن کو ہسپتال کے اندر لیا جا رہا تھا۔ لیکن جاوید کی نگاہیں تب پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اُ سے زخمی ہونے والوں میں اپنے استاد قریشی صاحب بھی نظر آئے۔ جاوید کے حافظے میں ایک انوکھی ہلچل پیدا ہو گئی ۔اسکول کی حسین یادوں نے لمحہ بھر کے لئے ڈھیر ساری خوشیاں دیں لیکن قریشی صاحب کی بے بسی نے بے قراری بڑھا دی۔ ایثار اور ہمدردی کے موضوع پر قریشی صاحب کی تقریر کا لفظ لفظ یاد آیا۔ اسے ایک ہی وقت میں کئی طرح کے خیالات نے جکڑ لیا۔ ایک طرف ماں کی لاش کندھے کی منتظر اور دوسری طرف استاد قریشی صاحب کسی ہمدرد کی تلاش میں، جاوید کے ذہن میں مچی کھلبلی کو اس وقت کچھ راحت ملی جب وہ دوڑتے دوڑتے اس کمرے میں پہنچ گیا جہاں زخمیوں کے لیے خون کا عطیہ جمع کیا جا رہا تھا۔ جاوید نے قریشی صاحب کے لیے خون کا عطیہ دیا اور بوجھل قدموں سے اس وارڑ کی طرف چلا ایا جہاں سرخ کمبل میں لپٹی ماں کی لاش بیٹے کے انتظار میں ہے اور لوگ ان کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے۔
���
لیکچرار گورنمنٹ گرلز ہائر سکینڈری اسکول صورہ سرینگرسرینگر
موبائل نمبر؛ 9596263676