روڈ سیفٹی کا موضوع آج کل پھر زیر بحث ہے اور روایتی میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک ہر جگہ محفوظ سفر کو لیکر باتیں ہورہی ہیں۔ روڈ سیفٹی سے جڑے محکموںکے حکام بھی اپنے دلائل سے دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش بھی کررہے ہیںتاہم یہ دلائل بے سود ہیں کیونکہ ٹریفک اور ٹرانسپورٹ سے جڑا سارا سرکاری نظام ہی آلودہ ہوچکا ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے دفاتر کورپشن کی آماجگاہ بن چکے ہیں اور ٹریفک پولیس محکمہ پر بھی کورپشن کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ڈرائیونگ لائسنس کی اجرائی سے لیکر روٹ پرمٹ اور روڈ ٹیکس کی ادائیگی تک ایک ایسا مافیا سرگرم ہوچکا ہے جس نے اس محکمہ کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ۔ریجنل ٹرانسپورٹ دفاتر کشمیر اور جموں سے لیکر تمام اضلاع میں قائم اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ آفسوں تک کورپشن کا بول بالا ہے اور ان دفاتر میں تعینات ہر کوئی ملازم کورپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو بے تاب رہتا ہے ۔ بڑھتے سڑک حادثات پر آئے روز تشویش ظاہر کی جارہی ہے تاہم اس کی بنیادی وجوہات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیاجارہا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈرائیور حضرات لائسنس کہاںسے لاتے ہیں۔اس کا جواب عیاں ہے کہ آرٹی او کشمیروجموں کے دفتر وںسے لیکر تمام ضلعی ٹرانسپورٹ دفاتر تک لائسنس کی تھوک و پرچون بکری لگی ہوئی ہے اور باضابطہ دلالوں کے ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے بغیر کسی ٹیسٹ کے لائسنس اجرا کی جارہی ہیں۔ان دفاتر میںدلال حضرات سارا کام خود ہی کرلیتے ہیں اور درخواست دہندہ کو کسی پریشانی کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا ہے اور ڈرائیونگ ٹیسٹ میں پاس ہوں یا فیل،انہیں لائسنس مل ہی جاتا ہے ۔لاکھوں کی تعداد میں لائسنس اجرا کی جاچکی ہیں اور اگر ان لائسنس یافتہ ڈرائیوروں کو پھر سے ڈرائیونگ ٹیسٹ سے گزارا جائے گا تو خال خال ہی کوئی کامیاب ہوجائے گا۔یہی حالت روٹ پرمٹ اجرائی کی بھی ہے ۔اس معاملہ میں بھی پیسے خرچ کرکے آپ آسانی سے یہ پرمٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ہل ڈرائیونگ لائسنس کا حصول بھی کوئی کمال نہیں ہے۔بدعنوانی سے عبارت محکمہ ٹرانسپورٹ اور اس سے منسلک ذیلی اداروں کے تعلق سے بات کرنا بھی اب معیوب سالگتا ہے کیونکہ جتنا کچھ آج تک اس محکمہ کے تعلق سے لکھا گیا ہے ،وہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا اور’’اونٹ رے اونٹ ،تیری کون سی کل سیدھی ‘‘کے مصداق یہ محکمہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔اعلیٰ سطح پر بہتری کے جتنے بھی دعوے کئے جارہے ہیں،نچلی سطح پر محکمہ اتنی ہی تنزلی کی جانب گامزن ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نچلی سطح پر یہ محکمہ ایک کاروباری منڈی کی شکل اختیار کرگیا ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ رجسٹریشن کے عمل سے لیکر لائسنس کی اجرائی تک اس محکمہ میں ہر روز بھاری پیمانے پر پیسوں کا غیر قانونی لین دین ہورہا ہے اوریہ اْسی لین دین کا نتیجہ ہے کہ آج ہر کوئی ایرا غیرا نتھو خیراڈرائیور بنا بیٹھا ہے جبکہ حقیقی معنوں میں وہ ڈرائیونگ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتا ہے۔محکمہ کے نچلی سطح کے ملازمین تبدیلی کے نام سے نابلد ہیں اور وہ آج بھی اُسی روایتی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں جو آج نہ صرف متروک ہوچکا ہے بلکہ اُسے فرسودہ قرار دیا جارہا ہے۔رہی سہی کسر وہ مافیا پورا کررہا ہے جوکم و بیش ان دفاتر کاحصہ بن چکا ہے جنہیں سلام کئے گئے بغیر کسی بھی دفتر میں آپ کے ساتھ کلام کرنے کی زحمت تک کوئی گوارا نہیں کرتا ہے۔ جب یہ صورتحال ہو تو آپ کیسے کسی انقلابی تبدیلی کی امید کرسکتے ہیں۔اگر محکمہ کو سدھار نا ہے تو اولین فرصت میں اوپرسے نیچے تک پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے ۔سیکریٹریٹ میں قائم ٹرانسپورٹ کمشنر کے دفتر سے لیکر آرٹی اواور ضلعی دفاتر تک سب کا احتساب ناگزیر بن چکا ہے کیونکہ پیسوں کی ہریالی سے شاید ہی کوئی محروم ہوجاتا ہے۔وقت آچکا ہے جب ان دفاتر میں قائم مافیا کو الگ تھلگ کرنا چاہئے ورنہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے اور کوئی سدھار نہیں آئے گا۔سڑک حادثات پر کیسے قابو ممکن ہوپائے گا جب آپ بنا ٹیسٹ کے تھوک میں لائسنس بیچتے رہیں۔سڑک حادثات کو روکنے کیلئے پہلی فرصت میں لائسنسوں کی اجرائی کے منظم کاروبار پر بریک لگانے کی ضرورت ہے ۔جب لائسنسوںکی اجرائی شفاف ہوگی تو خود بخود حادثات کی شرح کم ہوگی۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اولین فرصت میں محکمہ ٹرانسپورٹ کا نظم نسق بحال کرے اور اس کیلئے لازمی ہے کہ دلالوں اور ملازموں کے درمیان ملی بھگت کو بے نقاب کرکے اس پر قدغن لگائی جائے ۔جب یہ ملی بھگت ختم ہوگی اور پیسوں کا لین دین ختم ہوگا تو نظم و نسق خود بخود بحال ہوگا اور عوام کو اس لعنت سے نجات مل پائے گی ورنہ جس طرح اس وقت معاملات چل رہے ہیں،ایسے میں کسی اچھائی کی توقع رکھنا عبث ہے ۔