اس نے سنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔!
وہ لوگ اصلی روشنی کے دعویدار ہیں۔اس کی آنکھیں بھی اصلی روشنی کے لئے ترس رہی تھیں‘کیونکہ مصنوعی روشنی کی جلن اب آنکھوں کے بعد دل کی جانب بڑھ رہی تھی۔وہ شعبہ ٔ تحقیق کا ایک سینئر سائنس داں تھا۔اس کی زیرنگرانی کئی سائنسداں تحقیق کررہے تھے۔یہ شعبہ برسوں سے کائنات کے راز پر تحقیق کررہا تھا۔تحقیق کے دوران وہ اکثر سوچتا رہتا کہ کائنات کا نظام کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک منظم پلان کا ثبوت فراہم کررہا ہے۔لیکن مصنوعی روشنی کے تصور حادثہ نے تو اس کی عقل کو بھی محسوسات تک محدود کرکے ایک حادثہ ہی بنائے رکھا تھا۔وہ تو برسوں سے ریسرچ میں کھویا ہوا تھااور سکون قلب پرسوچنے کیلئے اسے کم ہی وقت ملتاتھا ۔ گھر لوٹنے کے بعد جب دماغ میں انتشار کی بھٹی گرم ہوجاتی تو وہ سکون قلب کی خاطر مطالعہ و مشاہدہ کی مصنوعی روشنی میں دوبارہ کھو جاتا لیکن مصنوعی روشنی کی چمک آنکھوں کو تو روشن کردیتی مگر دل کی تاریکی کا کوئی مداوا پیش نہیں کرتی ۔
کبھی کبھی وقت کی رفتارانسان کی سوچ کوبدل بھی دیتی ہے اوریہ بدلاؤجب حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے تو سوچ کا سفر اندھیرے سے نکل کر روشنی کی جانب بڑھ جاتا ہے۔وہ بھی اندھیرے سے نکل کر اب روشنی کی تلاش میں نکل پڑا۔راستے میں کئی پڑاؤ آئے لیکن اصلی روشنی کی تلاش جاری رہی۔چلتے چلتے آخر کار وہ اصلی روشنی کے دعویداروں کے قریب پہنچ گیا۔دل میں اطمینان کا جذبہ جاگ اٹھا۔میل میلاپ شروع ہوا۔ مشاہدہ جاری رہا۔لیکن گہرے مشاہدے کے بعد وہ سوچتا رہتاکہ ان لوگوں کا دعویٰ تو سچا لگ رہا ہے لیکن ان کے سروں پریہ کیسی دھند چھائی ہوئی ہے۔۔۔۔؟یہاں تو روشنی کے باوجود اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرہا ہے۔۔۔۔!اس دھند سے تو پرندے بھی خوف زدہ ہورہے ہیں لیکن یہ لوگ ۔۔۔۔؟وہ پریشاں ہوکراب دھند کاسراغ ڈھونڈنے میں لگ گیا۔
’’یہ کیا۔۔۔۔؟‘‘پوری صورتحال دیکھ کر وہ حیرت زدہ ہوا۔
وہ جب بھی کسی سے دھند کے متعلق سوال کرتا تو ہر ایک کا جواب یکسا ں ہوتاکہ یہ دھند دوسرے لوگوں نے پھیلائی ہے‘ اس لئے ہم ہی اس دھند میں اصلی روشنی کے پیامبر ہیں۔اس دھند لے ماحول میں جب اس کا دم گھٹنے لگا توحقائق سامنے آتے ہی وہ حیراں ہوگیا:
’’ان لوگوں نے تو اصلی روشنی کی کرنیں تقسیم کردی ہیں اور ہر ایک اپنی ہی کرن کو پوری روشنی سمجھ رہا ہے۔‘‘
وہ جب بھی کسی سے بات کرتا تو ہر کوئی بڑے کروفر سے دعویٰ کرتا رہتا کہ وہی سچا ہے۔تھوڑا اور غور کرنے پر وہ بنیادی مسئلے کی تہہ تک پہنچ گیا۔وہ سوچنے لگا:
’’یہ لوگ تو صرف ایک کان سے سنتے ہیں اور ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ان کی گردنیں تو اندھیرے کے پٹے میں جکڑی ہوئی ہیں۔یہ تو اپنے اپنے کنوئیں سے پانی نکال نکال کرایک دوسرے پر چھڑک رہے ہیں کہ ان ہی کا پانی صاف ہے‘ لیکن یہ پانی تو خود گدلا ہے‘بھلا یہ کیسے صفائی کا کام دے گا اس سے تو اور بھی بدبو پھیلے گی۔‘‘ وہ یہ دیکھ کربھی افسوس کرنے لگا کہ یہ لوگ پانی چھڑکنے کے ساتھ ساتھ ایک ہوکر بھی ایک دوسرے کوکیوں حیوانوں کی طرح گھور رہے ہیں ۔
یہ اندوہناک صورت حال دیکھ کروہ گہری سوچ میں پڑگیا۔سوچتے سوچتے اس کے دل میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ اُسی روشن قندیل کی روشنی کو دیکھا جائے جس کی کرنوں کو ان لوگوں نے دھند زدہ کردیا ہے۔ اصلی روشنی کی تلاش کے لئے وہ روشن قندیل تک پہنچ ہی گیا۔قندیل کی روشنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے لگی۔دل و دماغ اصلی روشنی کی روشن کرنوں سے منور ہوتے رہے۔اصلی روشنی سے فیض یاب ہوکروہ جب اطمینان قلب کے ساتھ دوبارہ ان لوگوں کی طرف لوٹا تو وہ خوفناک مناظر سے لرز اٹھا۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ہرطرف دھند ہی دھند پھیلی ہوئی تھی اوردھند کے درمیان خال خال ہی انسانی صورتیں نظر آرہی تھیں۔۔۔باقی ۔۔۔۔دھندکی لپیٹ میں سانپ ‘بچھو‘بھیڑئے‘گدھے‘مگرمچھ‘ بندر ‘گدھ ‘کوئے وغیرہ سبھی آچکے تھے جو ایک دوسرے کو ڈسنے‘کاٹنے اور مارنے میںلگے ہوئے تھے۔ اس کی حیراں نظریں آسمان کی جانب اٹھیں ۔آسمان کو دیکھتے ہی اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے دھندسے بیزار ہوکرقندیل کی روشنی بھی آسمان کی طرف لوٹ رہی ہے۔
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
[email protected] mob.7006544358