راجہ یوسف
نہ جانے کتنے ہاتھوں سے مس ہوکر ، کتنے شہروں کی سرد گرم ہوائوں کو چھو کر آج بند لفافے میں تمہارا خط ملا ۔ جس کا جواب لکھنے بیٹھا تو قلم انگلیوں سے پھسلتا رہا ۔ جیسے ہاتھ میں رکنا ہی نہیں چاہتا ۔ ذہن میں عجیب عجیب وسوسے کلبلانے لگے ۔دل میں طرح طرح کے خیالات جنم لینے لگے ۔
بچپن کی پگڈنڈی پر گلی ڈنڈا کھیلتے کھیلتے جب ہم جوانی کی شہراہ پر نکل آئے تو تیرے دل میں ٹریفک کے اژدھام میں گم ہونے کی خواہش پنپنے لگی ۔ سکولوں کالیجوں ، پارکوں اور بازاروں میں آتی جاتی فیشن ایبل لڑکیوں کی ادائوں پر جان چھڑکنے کی تمنا در آئی۔ دونوں طرف سجی دکانوں کے حسن او ر اونچی اونچی عمارتوں کی دلکشی تجھے اپنی اور کھینچنے لگی ۔ پیسے کی چاہ نے تجھے راہ دکھلا دی اور تم دولت مند ہوگئے ۔پھر تم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ کوئی بھی کام چاہئے وہ جوکھم والا ہی کیوں نہ ہوتا تم اس میں ضرور ہاتھ ڈال دیتے تھے۔ بس وہ تمہیں امیر سے امیر تر بنانے میں معاون اور مدد گار ثابت ہوتا۔
بیوی چننے میں بھی تم نے یہی گُر اپنایا۔ بسیار تلاش کے بعد تمہاری دلی مراد بھر آئی ۔ پاش کالونی کا وہ سب سے بڑا بنگلہ ، جن کی بیٹی قبول صورت تو نہیں تھی لیکن بڑی جائیداد کی اکلوتی وارث تھی۔
مشرق و مغرب اور جنوب کے سارے ممالک اور بڑے بڑے شہر تم نے کھنگال ڈالے ۔ صرف اس لئے کہ تمہارے بیٹے کہاں سے زیادہ دولت کما سکتے ۔ اور تم نے اپنے تینوں بیٹوں کو ان شہروں میں ایڈجسٹ کروا کے ہی دم لیاجہاں سے وہ بے تحاشہ دولت کماتے۔
تیری بیوی ساری زندگی تجھ سے بے زار رہی ۔ تیرے بیٹے تجھ سے دور ہوئے ۔ لیکن تم خوش تھے کہ تیرے بیٹے کمائو ہیں اور وہ تمہاری دولت میں اضافہ ہی کر رہے ہیں۔ حالانکہ بڑھاپے کی سنسان سڑک پر پہنچ کر تم ٹھٹھک تو گئے لیکن تیری چاہ تب بھی ہوس کی راہ تلاشنے میں سرگرداں ہی رہی۔
اور میں۔۔۔ میں ایک کمزور اور چھوٹا موٹا قلم کار۔ میرا نام ملک کے نامور ادیبوں میں شامل تھا۔ میری تخلیقات معتبر رسائل میں شائع بھی ہوتی تھیں لیکن چہرے مہرے سے مجھے کوئی نہیں جانتا تھا کیونکہ آج تک میری تصویر کسی رسالے یا اخبار میں نہیں آئی تھی۔ ویسے بھی میرا زمانہ لیتھو پر چھپتے اخبارات اور ہاتھ سے لکھے رسائل شائع کرنے کا زمانہ تھااور کبھی کسی رسالے کو تخلیق بھیجنے کے لئے میرے پاس ڈاک لفافے کے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ میں اپنی ہی زندگی کے کالے سمندر میں پھنس چکا تھا، جس میں ایک دن تنگدستی کی طغیانی تو دوسرے دن لاچاری کے طوفان آتے جاتے تھے۔ میری تین جوان بیٹیاں تھیں۔ مجھے ان کی شادی کی فکر تھی اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ میں برین ہمریج جیسے بڑے حادثے کا شکارہوگیا ۔بچ تو گیا لیکن ا ٓدھا جسم فالج زدہ ہوکر رہ گیا۔ خزان کی ایک ہی لہر سے میرے چہرے پر مردنی چھا گئی۔میں کام سے بھی گیا اور آرام سے بھی۔لیکن مجھے تمہاری دوستی پر ناز تھا۔ تم پرہی تکیہ کر بیٹھا تھا۔ تم اُن دنوں لاکھوں میں کھیلتے تھے اور اکثر میری مدد بھی کیا کرتے تھے۔ میں تمہارا مقروض بن چکا تھا۔اور میں جانتا تھا کہ میں تمہارا قرض زندگی بھر چکا بھی نہیں سکتا ۔ لیکن ایک دن تم میرا سارا قرضہ معاف کرنے آگئے ۔ میں خوش بھی تھا اور ہکا بکا بھی۔ تم نے ایک رسالے میں پڑھا تھا کہ دہلی میں میرے اعزاز میں ایک کانفرنس منعقد ہونے والی ہے جسمیں مجھے قلمکاروں، پریس رپورٹروں اور ادبی رسائل کے ایڈیٹرس سے ملنا تھا ۔ میرے پاس بھی منتظمین کے خط آئے ہوئے تھے ۔ پر مجھ میں اِتنی سکت نہ تھی کہ میں دہلی تک جا سکتا ۔۔۔۔۔ لیکن جب تم نے مجھ سے کہا
ـ’’ یوسف تیرے بدلے میں کانفرنس میں جائوں گا ۔‘‘ پہلے میں سمجھا ہی نہیں لیکن جب تم نے اسکی وضاحت کی تو میں تمہارا چہرہ دیکھتا ہی رہ گیا جس پر نہ کوئی احساس جرم تھا اور نہ کوئی شرمندگی تھی بلکہ جہل نما جوش اور مکر بھرا جنون تھا۔ ۔۔۔ میں مجبور تھا۔۔۔ تیرا مقروض بھی ۔۔۔ انکار کی صورت میں تم اپنے پیسوں کا تقاضہ کرتے جو میرے پاس نہیں تھے ۔
رسالے کا سر ورق دیکھ کے میری آنکھوں سے آنسوں کے د و قطرے تیرے مسکراتے چہرے پر گرے۔ لیکن جلد ہی مجھے اپنی بے بسی پر ملامت کرنی پڑی۔ آستین سے سر ورق پر گرے آنسوں صاف تو کئے لیکن تیرے چہرے پر ملگجی دھبے پڑے رہ گئے۔ مجھے یاد آیا تم نے ایک دن مجھ سے کہا تھا۔
’’ یوسف تم میری روح ہو اور میں تمہارا جسم ‘‘ یہ یاد آتے ہی مجھے احساس ہوا کہ میں غلطی کر رہا ہوں۔ بھلا روح کا بھی کہیں نام آتا ہے۔
تیرے نام پر مقالے لکھے گئے تھے۔۔۔ کئی رسالوں نے تیرے نام کے نمبر شایع کئے تھے۔ سر ورق پر تمہاری مسکراتی تصویر جمگ مگ کرتی چمک رہی تھی۔ کئی رسائل نے بڑے بڑے گوشے نکالے تھے اور میں خاموشی کے غار میں ڈوبتا چلا گیا۔ اپنے آپ کو روح سمجھ کر خون کے آنسوں روتا رہا ۔۔۔۔۔
تمہیں جب بھی نئی تخلیق کی ضرورت پڑی میں نے لکھ کر دے دی ۔۔۔اب میں تمہاری ضرورت بن چکا تھا اور تم میری ۔۔۔ تمہاری مہربانیاں مجھ پر بڑھتی ہی جا رہی تھیں ۔ میرے گھر کا چولہا جلتا رہااور تمہارا نام ہوتا رہا ۔۔۔۔۔ میری دو بچیوں کی شادی ہوگئی تھی اور اب تیسری کی بھی ہو رہی تھی تو مجھے ایسا لگنے لگا کہ اب میں زیادہ دن جی نہیں پائوں گا کیونکہ اب میں بستر سے اٹھ بھی نہیں پاتا تھا ۔ اس لئے میری بڑی بیٹی آج کل میرے ساتھ ہی رہتی تھی ۔
زیادہ تر لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب جسم سے روح نکل جاتی ہے تو روح امر ہوجاتی ہے۔ جانے کیسی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔؟ میں تو اس کی اصل تہہ تک پہنچ گیا ہوں اور اچھی طرح سے سمجھ بھی گیا ہوں کہ روح جسم میں رہے یا جسم سے چلی جائے تو روح نہیں بلکہ جسم امر ہوجاتا ہے۔۔۔ روح تو ایک احساس ہے جو لطیف ہوا کی طرح جسم کے اندر بستی ہے ، جس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ نہ ہی وہ مقید ہے اور نہ ہی اس کی کوئی حد مقرر ہے۔ جسم کی ایک صورت ہے۔ صورت ہی تو پہچان ہے۔ بُرپیچ راستہ ہی سہی پر ایک منزل ہے جو یاد رکھی جاتی ہے اور جس کی طرف رجوع ہے ۔
اور ہاں تمہارے آج کے خط سے مجھے یاد آیا ۔ میرے پاس میرا آخری مکمل مسودہ رہ گیاہے جو میں نے تجھے بتائے بغیر اپنے لئے سنبھال کر رکھاتھا۔ لیکن اب وہ میرے کس کام کا۔ اب تو بس ایک ہی چاہت ہے کہ تیرا نام ہوجائے اور تیرے نام کے ساتھ میں بھی جیتا رہوں ۔۔۔کیونکہ تو میرا دوست ہے نا۔ میرا جسم ۔۔۔ اور میں ۔۔۔روحِ ناتواں۔
���
اسلا م آباد،اننت ناگ ،کشمیر فون نمبر9419734234