شہباز رشید بہورو
مغرب کی خدا بیزار تہذیب سائنس کے بلبوتےپر پچھلی صدی کے مقابلے میں اس صدی میں نہایت ہی سرعت کے ساتھ مشرق کے ہر سیاسی اور معاشرتی ادارے میں داخل ہوچکی ہےاور برابر اپنی ساخت قائم کئے جارہی ہے اور یہ بالکل واضح طور پر دکھائی دےرہا ہے کہ مغرب کا تہذیب وتمدن اب ہمارے یہاں کے ان لوگوں کے اندر بھی سرایت کر گیا ہے جنہیں عام طور پرقدامت پسند،دیسی اور بدو کہا جاتا تھا ۔عرب کے قدامت پسندوں کا حال تو سب کےسامنے ہے جہاں مغربی تہذیب و تمدن باقی مشرقی ممالک کے مقابلے کس عروج پر ہے۔ جیسے کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہمارے یہاں ترقی کا مفہوم مغرب کے تصور ترقی سے بالکل مختلف ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم نے معاشی خوشحالی کو کل ترقی سمجھ لیا ہے ،حالانکہ یہ ترقی کا ایک پہلوہے نہ کہ مکمل ترقی ۔اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کے مقابلے عرب دنیا کو زیادہ ترقی یافتہ مانتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ہم سے بہت زیادہ خوشحال ہیں لیکن اس خوشحالی کا اظہار وہاں بھی مغربی تہذیب کے اپنانے کی صورت میں ہو رہا ہے ۔یعنی یہ دوسرا المیہ ہے کہ ہم نےخوشحالی کو بھی مغربی تہذیب کے ہم نام بنا لیا ہےاور خوشحالی اور ترقی کے مفہوم کو آپس میں گڈمڈ کیا ہے۔جب کہ ترقی بنیادی طور پر سوچ اور نظریات کے ترفع کا نام ہے اور ان کے مطابق ممکنہ عملی نظام کو پیش کرنے اور قائم کرنے کی سکت کا نام ہے ۔سائنسی نظریات کی بنیاد پرعملی ایجادات ہوئیں اور ان ایجادات سے جو گونا گوں تبدیلیاں ہوئیں ،ان سے کوئی ناواقف نہیں ۔ہماری فکر کی وسعت کتنی ہے ،ہماری سائنسی سوچ کا معیار کیا ہے اور ہمارے یہاں معاشی ومعاشرتی نظام کے متعلق کس نوعیت کانطریہ موجود ہے اور ان نظریات کا غالب ہونے کے امکانات کتنے ہیں یہ چیزیں ہماری ترقی کے پیرامیٹرس ہیں ۔مغرب نے پچھلی دو صدیوں میں جن افکار ونظریات کے دریا بہا کر مشرق کی طرف ان کا رخ کر لیا ،اس سے ہم بے خبر نہیں بلکہ آج بھی ہمارے اسکولوں اور جامعات کےبنیادی تعلیم ڈھانچےمیں ان کا کلیدی رول ہے ۔ان سے واقفیت کی گہرائی کس سطح پرہےوہی ہماری ذہانت کی دلیل بنتی ہے نہ کہ ہمارا اپنا تخلیقی نظریہ ہے، جس کی بنیا د قرآن و حدیث پرہو۔مغرب کی سائنسی ترقی تو نتیجہ ہے ہی ان کی گہری سوچ اور فکر کا،جس میں ہم ابھی انہیں بچے نظر آتے ہیں۔
ہمارے یہاں پر ایک طبقہ نہایت خلوص کی ساتھ مغربی تہذیب کے مفاسد بیان کرنے پر مامور تھا اور آج بھی ہے ۔لیکن وہ خود بھی ان کی چکاچوند ترقی کے سامنے بے بس ہو کر ہاتھ ملنے پر مجبور ہے۔مشرق کی شکست خوردہ ذہنیت ان حضرات کے بیانیے سے بالکل بھی متاثر نہیں بلکہ الٹا ان کو کوستے رہتے ہیں کہ یہی ہیں جو ہماری ترقی کے دشمن ہیں ۔درحقیقت اس طبقہ کی اصل غلطی یہ ہے کہ وہ خود مغربی تہذیب و تمدن کا کوئی گہرا مطالعہ نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے ان کی تنقید بغیر کسی دلیل کے الزامات کے دائرے کے اندر مقید ہوکر رہتی ہے ۔جس کی وجہ سےعوام الناس میں یہ طبقہ بس چند مذہبی رسومات کی حد تک اپنی اہمیت ظاہر کر پاتا ہے، باقی کسی بھی پہلو کے اعتبار سے ان کی راہنمائی نہیں لی جاتی حالانکہ ہمارے دینی امور میں ان سے راہنمائی لی جانی چاہئے تھی تاکہ ہم کسی نہ کسی حد تک اپنا تہذیبی وقار برقرار رکھ پاتے لیکن اس میں عوام کی طرف سے جو بے توجہی برتی جارہی ہے، اس پر ہمارے علماءکو غور کرکے ان وجوہات کو تلاش کر لینا چاہئے جو بے توجہی کی وجہ بنے ہوئے ہیں ۔لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس اعراض کی وجہ ہی یہ ہے کہ یہ طبقہ بھی ہمارے جدید ذہن کو مغرب کی سائنس کی بنیاد پر اُبھرنے والے افکار و نظریات اور تہذیب و تمدن کے مقابلے میں اطمینان بخش دلیل فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔حالانکہ دلائل کا انبار موجود ہے لیکن بس یہاں بھی وہی بات آتی ہے کہ ہم اس محنت و مشقت اور جانفشانی کے ساتھ اپنے مذہبی علوم میں بھی راسخ نہیں ہوتے ،اثتثنات سے انکار نہیں ۔یہ طبقہ اگر زیادہ سے زیادہ کوئی محنت کا مظاہرہ کرتا ہے تو بس ایک دوسرے سے مناظرہ بازی کرنے میں ،چیخنے چلانے اور رونے رُلانے میں ۔گویا اس مذہبی رویے سے ہم جہاں ہم اپنے معاشرے میں اپنی اہمیت دن بدن کھو تے جا رہے ہیں وہیں مغرب کی طرف وہ اخلاقی ،روحانی،الہامی اور متقیانہ نظام فکر وعمل منتقل کرنے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں جو مغرب کو اس کی مادی ترقی سے پیش آنے والے مشکلات کا ازالہ کرنے میں معاون ہوتے۔مغرب ہماری جاہلانہ کاراوائیوں سے اس قدر خوف کھاتا ہے کہ انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ بس اس پوری خرابی کی جڑ ان کا مذہب ہے ۔اس لئے ہمیں اپنی اخلاقی و روحانی حالت درست کر لینی چاہئے تاکہ کل ہم اللہ کے ہاں لاجواب نہ ہوں ۔حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب ذہنی سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے لیکن ماجرا یہ ہے کہ:
زمانہ بڑی شوق سے سن رہا تھا
ہم سو گئے داستاں کہتے کہتے
مغرب کی مضبوط الحادی تہذیب کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان مغرب کو وہ حقیقی روحانی سامان مہیا کرے، جس سے انسانی فطرت متعارف ہے ۔مغرب کا ذہین طبقہ اسی روحانیت کی تلاش میں پگڈنڈیوں پر چل کر راہ گم بیٹھا ہے ۔قرآن کی بنیاد پر متقیانہ روحانیت اگر مغربی معاشرے میں بڑے پیمانے پر منتقل کی جائے تو امید ہے کہ باوجود طاقتور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مغرب کی الحادی و دجالی تہذیب کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اس تہذیب سے جو مشرقی معاشرے کا تقدس پامال ہو چکا ہے ،وہ دوبارہ سےبحال کیا جا سکتا ہے ۔لیکن افسوس صد افسوس قرآن و حدیث کی بنیاد پر روحانیت کی تحصیل کے لئے ہم نہ تیار ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی منصوبہ رکھتے ہیں ۔ہم میں وہ لوگ جو جو روحانیت کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں خود روحانیت کی تلاش میں مجنونوں اور حال سے بے حال فاترالعقل لوگوں کے گرویدہ ہیں ۔انہیں حضرت ابوبکر ؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ ،حضرت علی ؓ اور وغیرہم کی روحانیت کا معیار نہیں دِکھتا ،انہیں ائمہ و محدثین کی روحانیت کا معیار نہیں دِکھتا، جن کے علم و عمل سے پوری دنیا متاثر اور ان کی گرویدہ تھی ۔ہماری آج کی روحانیت کا تصور ہی بالکل غلط ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ روحانیت کسی ایک کونے میں جا کر ،کاغذ پر لکیریں مار کر اور فرائض اور سنن سے آزاد ہو کر لوگوں کو دم مارنے کا نام ہے ۔حالانکہ روحانیت ایک سیدھے سادھے الفاظ میں بندے کا اپنے مالک حقیقی کے ساتھ ایسے قلبی تعلق کا نام ہے کہ وہ ہر بات اور ہرعمل اللہ کی رضا جوئی کے لئے کرتا ہو اور اسی سے اجر کا طالب ہو ۔اس کی رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا یہ عالم ہو کہ بس آپؐکی سنت ہی اس کی زندگی کے ہر لمحے میں راہبر وراہنمابنے ۔اسی بنیادی اصول کے جلو میں سکون قلب وذہن کے تمان اجزا مستور ہیں جن سے مغرب ہی نہیں بلکہ مشرق بھی ناواقف ہے ۔
روحانیت دور جدید میں محض ایک خوبصورت اصطلاح بن کر شرم وحیا سے عاری لوگوں کے اسٹیجوں کی بھی زینت بنتی ہے ۔جو روحانیت کا خون کرنے کے بعد اسپرویچوالازم Spritualismکا دعویٰ کرتے ہیں ۔مغرب سے درآمد وہ تمام مفاسد جو مشرقی اخلاقیات کے لئے سم قاتل کا درجہ رکھتے ہیں ،دنیا کے لوگوں کو روحانیت فراہم کرنے کا ذریعہ کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں۔جس میں مسلمان قرآن جیسی نعمتِ عظمیٰ کے ہوتے ہوئے روحانیت کا صحیح مفہوم پیش کرنے میں بالکل ناکام نظر آتے ہیں ۔مسلمان مغرب کے مضبوط مادی و سائنسی ڈھانچے پر سجائے گئے ہر فلسفے اور ہر بیانیے سے متاثر ہی نہیں بلکہ مرعوب ہیں ۔حالانکہ اس مرعوبیت سے نکلنے کے لئے دنیا جہاں کا کوئی بھی وسیلہ کام نہیں آسکتا ،نہ مال ودولت ،نہ خوشحالی و خام خیالی حتیٰ کہ مغرب کی نقالی میں کی گئی سائنسی ترقی بھی نہیں ۔اس کی مثال آپ اُمت مسلمہ کے متعدد ممالک کو دیکھ کر لے سکتے ہیں ۔سعودی عرب ،عرب امارات،ایران ،ترکی وغیرہ نہایت خوشحال ممالک ہیں لیکن اس خوشحالی کے باوجود بھی مغربی مرعوبیت سے آزاد نہیں ہیں ۔البتہ ایک نعمت عظمیٰ ہے جس ہم مغربی تہذیب کے مضبوط ریلے کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور وہ نعمت ہے قرآن مجید۔(جاری)