سرینگر//سینئر کانگریس لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہاکہ’آج کے د ن کشمیر میں یہ حقیقت نمایا ں ہے کہ لوگ آئین ہند کی دفعہ 35 اے پر ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک ہی پلیٹ فارم پر منظم ہونا چاہتے ہیں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جموں اور لداخ خطے کے لوگوں نے اس مسئلے پر اپنی اجتماعی سوچ کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ 35A کے تحت جموںوکشمیر کے سبھی باشندوں کے حقوق یکساں طور محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہاکہاب کشمیر کی طرف آکر میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کشمیر کے لوگ ، بلا لحاظ پارٹی ، اس مسئلے پر یکجہتی کےلئے مکمل طور پر تیار ہیں لیکن اس مسئلے پر اب بھی لیڈر شپ کے طریقِ کار میں تقسیم ہے۔ اب دیکھئے ،حریت کانفرنس نے ۹۲ اگست کو ہڑتال کی کال دی ہے اور ادھر سے سینئر سیاسی لیڈر فاروق عبداللہ نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ اس مسئلے پر ہم کو متحد(United) جدوجہد کےلئے سامنے آنا چاہئے۔ اس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کےلئے دو آوازیں عوام کے سامنے آ رہی ہیں اور متحدہ قوت کے مظاہرے کو کچھ نقصان تو ہو ہی گیا ہے ،تاہم اس طریقِ کار کو بدلنے کی ابھی ذرا سے مہلت میسر ہے!میری تجویز یہ ہوگی کہ کشمیر کی سول سوسائٹی میں کچھ ایسی شخصیتیں ہیں جو حریت اور مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک موثر رابطے کا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ اس لئے ایسی چند شخصیتوں کو پہچان کر فوری طور رابطے کا کام سپرد کرنا چاہئے ۔ میں دونوں اطراف کو اس سلسلے میں اپنے طور کچھ مدد بھی دے سکتا ہوں۔ میرے نزدیک یہی مفاہمت کا رابطہ پیدا کرنے کا مفید اور کار آمد طریقہ ہے کیونکہ ہمارے سامنے آئین ہند کی دفعہ 35A کی صورت میں ایک بہت ہی نازک مرحلہ ہے جس کو کشمیر کو پہنچانے والے مقتدر عالم اے .جی .نورانی نے بجا طور پر کشمیر کے وجود کےلئے نہایت ہی خوفناک اور سنگین خطرہ قرار دیا ہے!۔تاہم ،میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کو آئین ہند کی دفعہ 35A کے منسوخ ہونے کے اثر ونفوذ، نتائج اور اثرات کی مکمل طور خبر ہوگی اور اس طرح سپریم کورٹ کو بھی 35A کو منسوخ کرنے کی کوئی مجبوری درپیش نہیں ہے!“