رحیم رہبر
مجھے اُس کی بے وفائی نے پتھر بنا دیا تھا۔ اب میں کوئی بھی تکلیف مسکراتے ہوئے برداشت کرتا تھا۔ لوگ مجھے ’ہمت والا‘ کہتے تھے۔ جب بھی مجھ پہ کوئی مصیبت آن پڑتی تھی تو میں ہنستا تھا!
’’سر! صبر کرنا تو کوئی آپ سے سیکھے‘‘ جواز نے مجھ سے کہا۔
’’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کی آساں ہوگئیں‘‘۔
’’سر! میں سمجھا نہیں‘‘۔ جواز نے پوچھا۔
’’انسان پہ جب مصائب کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے تو وہ برداشت کی حد تک ان کا مقابلہ کرتا ہے‘‘۔
’’سر! میں پھر نہیں سمجھا‘‘۔ جواز نے دھیمی آواز میں کہا۔
’’برخوددار! زندگی کے مختلف پڑائو طے کرتے کرتے میں ذہنی کرب سے گُذرا ہوں لیکن مجھے جسمانی کرب نے کمزور کردیا ہے۔‘‘
میرا جواب سُنکر جواز مُسکرایا اور کہا۔
’’سر! انسان کو کمزور ہی بنایا گیا ہے۔ اس بات کی تصدیق اللہ خود کرتا ہے،
وَخُلِقَ الاِلنسانُ ضعیفَاہ
’’میں ضعیف تو ضروری ہوں لیکن غلام نہیںہوں!‘‘
جواز تھوڑی دیر میرے چہرے کو تکتا رہا۔
’’سر! میں نے جینا آپ سے ہی سیکھا ہے‘‘۔
’’جیو۔۔۔اور جیو۔۔۔خوب جیو‘‘۔
’’سر!جی رہا ہوں‘‘۔
’’لیکن۔۔۔!‘‘
’’سر!لیکن کیا؟‘‘ جواز نے پھر انہماک سے پوچھا۔
’’شان سے جیو۔۔۔۔اپنی زمین پہ اپنا آسمان تلاش کرو۔‘‘
’’سر۔۔۔سر۔۔۔سر۔۔ کیا!؟‘‘ جواز نے تعجب سے پوچھا۔
’’انہوں نے مجھے گملے میں رکھا ہے۔۔۔ میں نے جن خون پسینے کے پیسوں سے وہ عالیشان کوٹھی بنوائی تھی، اُسی کوٹھی کے لان میں میرے اپنوں نے مجھے لوگوں کی دل بہلائی کے لئے گملے میں رکھا۔ میں اب رینگ رینگ کر اُس گملے میں جی رہا ہوں۔
’’کیا۔۔۔۔!؟‘‘ جواز نے آنسوں پونچھتے ہوئے پوچھا۔
’’اُن کی رگوں میں میرا ہی خون دوڑ رہا ہےجنہوں نے گملے میں میرا آسمان تنگ کردیا۔ مجھے میرا کھلا آسمان چاہئے۔۔۔ میں کھلی فضائوں میں اونچی اڑان چاہتا ہوں۔ میں اس دھرتی پر وہی آسمان چاہتا ہوں جہاں بُلندیاں بھی سجدہ ریز ہوتی ہیں۔‘‘
’’سر! میں تمہیں اپنا آسمان واپس دلائوں گا‘‘۔
’’پر کیسے؟‘‘ میں نے جواز سے پوچھا۔
’’سر! میں وہی جواز ہوں جسکو آپ نے کلاس روم میں پرواز کرنا سیکھایا ہے۔ یہ کمال کا ہُنر سر میں نے آپ سے ہی سیکھا ہے۔۔۔!‘‘
���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ، بیروہ،موبائل نمبر؛9906534724