نور شاہ
ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد احمد فواد کا یونیورسٹی کی وساطت سے جرمنی جانا اور ایک بین الاقوامی سطح کے انٹرویو میں شامل ہونا اس کی خوش نصیبی کا ذریعہ بن گیا۔ اپنی بہتر کارکردگی کی بنا پر عالمی سطح کی ایک ڈیجیٹل کمپنی نے اسے مارکیٹنگ شعبہ کا انچارچ بنا دیا۔ اس شعبہ میں اس نے دو سال بڑی جانفشانی کے ساتھ کام کیا اور پھر کمپنی کے مشاورتی بورڈ کے ایک اہم رکن کے طور پر اس کی تعیناتی ہوئی۔ کمپنی کے مختلف شعبہ جات کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے اس کی تجاویز افادیت اور اہمیت اختیار کرتی گئیں لیکن اس پر وقار ماحول میں رہتے ہوئے بھی اسے کسی چیز کی کمی کا احساس رہتا۔ اس کا تعلق مشرقی طرز زندگی ، ہندوستانی تہذیب و تمدن اور کلچر سے تھا۔ اس ماحول میں اردو اور اردو زبان وادب سے اس کی وابستگی، اس کی محبت ، اس کے ذہن اور اس کی سوچوں کی تہہ میں پوشیدہ ہوتی گئیں ۔ اردو زبان میں تحریر کردہ کتابیں وہ اکثر گھر سے منگواتا تھا لیکن اب انہیں پڑھنے کے لئے اس کو وقت میسر نہ تھا۔ یہ کتا بیں اپنی ورق گردانی کے لئے بے قرار نظر آتی تھیں۔ اپنی بہت زیادہ مصروفیات کے باوجود اپنے گھر کو مشرقی انداز میں دیکھنے کی تمنا اُس میں اب بھی جاگتی رہتی تھی اور جب اس کی شادی کی بات چلی تو اس نے اپنے خاندان کی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرنے کی رضا مندی ظاہر کی۔ والدین کی مرضی سے لڑکی کا انتخاب ہوا۔ خانم پڑھی لکھی اور دیندار تھی۔ شرافت ، نفاست ، سادگی اور خوبصورتی کا پیکر تھی ۔ احمد فواد پندرہ دنوں کے لئے اپنے ملک، اپنے شہر اور اپنے گھر چلا آیا۔ نکاح کی تقریب سادگی سے انجام دی گئی۔ دو دن سسرال میں اور باقی چند دن اپنے گھر میں گزارنے کے بعد وہ خانم کو ساتھ لے کر جرمنی لوٹ آیا۔ خانم کے آتے ہی اس کے گھر میں ایسی تبدیلی دیکھنے کو ملی جس کا احساس جانے کب سے احمد فواد کے ذہن میں پنپ رہا تھا اور جانے کب سے باہر آنے کے لیے بے قرار ہو رہا تھا۔ کتابوں کی ورق گردانی شروع ہوئی، گفتگو اردو زبان میں ہونے لگی اور اردو زبان و ادب کی آبیاری ہونے لگی۔ اردو شاعری کی مہک بکھر نے لگی۔ گھر کی ہر شئے پر مشرقیت اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کی جھلکیاں نظر آنے لگیں۔ کھانے پینے میں مشرقی طریقہ انداز اپنانے سے سلیقہ مندی نے گھر کی رونق بڑھا دی۔ اب وہ ایک ہندوستانی گھر لگ رہا تھا، ہر انداز اور ہر ادا سے۔ اور پھر آہستہ آہستہ رک رک اور ٹھہر ٹھہر کر زندگی کی راتیں دنوں میں بدلتی گئیں اور دن راتوں کا روپ و رنگ اپناتے گئے ۔ اب احمد فواد مشاورتی بورڈ کا سربراہ بن چکا تھا اور اس وجہ سے اسے اپنے گھر، اپنے دفتر اور اپنے شہر سے باہر جانا پڑ رہا تھا کیونکہ کمپنی کی سرگرمیاں بہت حد تک بڑھ چکی تھیں ۔ احمد فواد کی ذمہ داریاں بھی بڑھ چکی تھیں اور مصروفیات بھی۔ اس وجہ سےخانم کی جان پہچان اور دوستی کا حلقہ بھی بڑھ رہا تھا۔
اب کی بارا سے دو ماہ گھر سے باہر رہنا پڑا۔ مختلف مغربی ممالک کا سفر کرنا پڑا اور جب دو ماہ بعد اس نے اپنے گھر کے آنگن میں قدم رکھے اور دروازے پر دستک دی تو دروازہ کھلتے ہی وہ حیران و ششدر رہ گیا۔ دو قدم اندر چل کر اس کی حیرانگی میں اور اضافہ ہوا۔ گھر میں نہ مشرقی ماحول نظر آ رہا تھا اور نہ مشرقی طرز زندگی کی کوئی جھلک دیکھنے میں آرہی تھی۔ سب کچھ بدل چکا تھا، مشرق مغرب کا راستہ اپنا چکا تھا۔
خانم مغربی لباس میں ’’جرمن کو ئین‘‘ جیسی لگ رہی تھی ۔۔!
���
لل دید کالونی، حیدرپورہ سرینگر،موبائل نمبر؛8899637012