ڈاکٹر فیاض مقبول فاضلی
کشمیر کی دلکش وادی میں، جہاں فطرت کا پُرسکون حسن اکثر روزمرہ کی زندگی کے بنیادی چیلنجوں کو چھپاتا ہے، ایک وسیع مسئلہ اُبھر کر سامنے آیا ہے، جس نے جوانی کے جوش و خروش کو المناک نقصان میں بدل دیا ہے۔موٹر سائیکل سواروں کی نافہمی ،بے پرواہی اور تیز رفتاری کے باعث ہونے والے حادثوں میں نوجوان اور کمسن لڑکوںکی زندگیوں کے اتلاف نے اس وادی میں تشویش ناک صورت حال اختیار کرلی ہے اور ٹریفک ریگولیٹری حکام اور والدین حادثات کی شرح میں ہورہے اضافے سے با خبر ہونے کے باوجودخواب ِ خرگوش میں مست ہیں۔موٹر بائیک نامی یہ دو پہیوں والی مشینیں، جنہیںاکثر آزادی اور مہم جوئی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، بہت سے خاندانوں کے لیے غم و اندوہ کی علامت بن گئی ہیں۔ ایسی ہی ایک دل دہلا دینے والی کہانی ایک 12 سالہ لڑکے عرفان (تبدیل نام) کی ہے، جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا، جو بیرون ریاست سے چھٹیاں گزارنے آیا تھا ۔ آمد کے دن ہی ایک گھنٹے کے اندر ایک دل دہلا دینے والا ناقابل تلافی نقصان انجام کو پہنچا۔یہ کمسن ، زندگی اور خوابوں سے بھرا ہوا، ابھی کشمیر میں اُترا تھا، اپنے پیاروں کے ساتھ دوبارہ ملا ہوا تھا ، اس نے ایک دوست کی طرف سے موٹر سائیکل سواری کی دعوت قبول کی۔ جو خوشی کا موقع تھا ،وہ ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا۔ ایک مہلک حادثہ پیش آیا، جس میں لڑکے کی جان چلی گئی اور اس کا دوست شدید زخمی ہوگیا۔ اس سانحے کی خبر نے کمیونٹی میں صدمے کی لہریںدوڑائیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہم نوعمروں کے جان لیوا موٹر حادثات کے بارے میں سنتے ہیں۔ جس میں موٹر سائیکل کی لاپرواہی کے تباہ کن اثرات کو اجاگر کیا گیا۔
تیزرفتاری اور لاپرواہی کا کلچر:دنیا کے کئی حصوں کی طرح کشمیر میں بھی موٹر سائیکلوں کی رغبت ناقابل تردید ہے۔ وہ صرف نقل و حمل کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ انداز اور آزادی کا بیان ہیں۔ تاہم، یہ دلچسپی اکثر سڑکوں پر خطرناک رویے کا باعث بنتی ہے۔ بہت سے نوجوان سوار، جو کہ ایڈرینالین سے متاثر ہوتے ہیں اور متاثر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، اپنی بائک کو خطرناک رفتار کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ رفتار کی حدود کو واضح طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، سوار اکثر تیز رفتار پیچھا کرنے، پہیوں اور دیگر خطرناک چالوں میں مصروف رہتے ہیں۔سیلفیز اور سوشل میڈیا (Reels) نے اس خطرناک رجحان میں ایک اور تہہ ڈال دی ہے۔ یہ غیر معمولی بات نہیں ہے کہ سواروں کو اپنے کارناموں کو کیمرے میں قید کرتے ہوئے دیکھا جائے، اکثر تیز رفتاری سے یا کرتب دکھاتے ہوئے، ہر لمحے کو دستاویزی شکل دینے کا یہ جنون مہلک ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ سڑک اور دیگر گاڑیوں سے سوار کی توجہ ہٹاتا ہے، جس سے حادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ٹریفک کے ضوابط کو نظر انداز کرنا :کشمیر میں ٹریفک کی سب سے زیادہ سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہیلمٹ پہننے میں ناکامی ہے۔ ہیلمٹ، جو حادثات کی صورت میں سواروں کو سر کی شدید چوٹوں سے بچانے کے لیے بنائے گئے ہیں، اکثر پہننے کے بجائے ہینڈل بار سے لٹکتے دیکھے جاتے ہیں۔ ایک اور عام خلاف ورزی بائیں جانب سے اوور ٹیک کرنے کی مشق ہے۔ ڈرائیورز اوورٹیکنگ کرتے ہوئے بائیں جانب سے گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں جب کہ ٹریفک قوانین میں اوور ٹیکنگ دائیں طرف سے کی جانی چاہیے تاکہ سڑک استعمال کرنے والوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم، کشمیر میں بہت سے موٹرسائیکل سوار اس اصول کی خلاف ورزی کر کے خطرناک طریقے سے گزرتے ہوئے حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ ایک موٹر سائیکل پر دو سے زیادہ مسافروں کو لے جانے کا رجحان اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ سڑکوں پر موجود ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی توجہ اب ویسی نہیں رہی۔ تیز رفتاری یا کرتب پر عائد کردہ جرمانہ بہت کم ہے۔ ناتجربہ کار ڈرائیور جو تیز رفتاری کو کرتب سمجھتے ہیں، سڑکوں پر دہشت کا سماں پیدا کرتے ہیں۔ جس سے پیدل چلنے والوں سمیت دوسرے ڈرائیوروں کی زندگیوں کو بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو اپنے ساتھ دوسرے نوجوانوں کو بھی تیز رفتاری کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرائیور حضرات کا رویہ بہت لاپرواہ ہوچکا ہے اور انہیں قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک وجہ عوام کا غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔ کیونکہ اکثر ڈرائیوروں کو جب روک کر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے تو ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھگڑ پڑتے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو اپنے اثر و رسوخ کا رعب جما کر فراٹے سے نکل پڑتے ہیں۔ کم از کم امیراکدل کے ایک سفر میں میں ان موٹر سائیکل سواروں کی بے ترتیب ڈرائیونگ سے چار بار خود کو بچاتا ہوں۔
ٹریفک قوانین نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا کردار:۔ گاڑیوں کی زیادہ مقدار اور ٹریفک پولیس کے محدود وسائل کے پیش نظر کشمیر میں ٹریفک ضابطوں کا نفاذ ایک چیلنجنگ ہے۔ اگرچہ جرمانے اور چوکیوں کے ذریعے خلاف ورزیوں کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن مجرموں کی بڑی تعداد قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا مشکل بنا دیتی ہے۔ لاپرواہی کے رویے کو روکنے کے لیے بار بار کی خلاف ورزیوں پر سخت سزاؤں کی بھی ضرورت ہے۔تیز رفتاری کے خطرات اور ٹریفک ضابطوں کی پابندی کی اہمیت کو اجاگر کرنے والی عوامی آگاہی مہم نوجوان سواروں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور کمیونٹی تنظیموں کو ان مہمات میں شامل ہونا چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پیغام وسیع تر سامعین تک پہنچے۔
انسانی لاگت خمیازہ :کشمیر میں موٹرسائیکل کے حادثات کے اعدادوشمار ایک بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن وہ اس مسئلے کی انسانی قیمت کو پوری طرح نہیں پکڑتے۔ ہر حادثہ غم سے ٹوٹے ہوئے خاندان اور کمیونٹیز اپنے نوجوان اراکین کو ماتم کرنے کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں۔ کشمیر کی سڑکوں پر آئے روز رونما ہونے والے اَن گنت سانحات کی صرف ایک مثال ہے۔ جو والدین اپنے اکلوتے بچے کو کھو دیتے ہیں وہ ایک ایسا خلا چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ بہن بھائی، دوست اور دیگر رشتہ دار بھی نقصان سے دوچار ہوتے ہیں، ان کی زندگیاں ایک لمحے کی لاپرواہی سے ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہیں۔
والدین کا کردار اور ذمہ داری:موٹر سائیکل حادثات کی روک تھام میں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اور حفاظت کے بنیادی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ بچے اکثر اپنے والدین کے رویے اور عادات کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے صحیح رویوں کا مظاہرہ کریں۔والدین کو اپنے بچوں کو ٹریفک قوانین اور حفاظتی اقدامات کے بارے میں تعلیم و تربیت دینی چاہیے۔ اس میں ہیلمٹ پہننے کی اہمیت، رفتار کی حد کی پابندی اور دیگر حفاظتی اصول شامل ہیں۔والدین خود بھی ٹریفک قوانین کی پابندی کریں اور موٹر سائیکل چلاتے وقت حفاظتی اصولوں کا خیال رکھیں۔ ان کا یہ مثالی کرداربچوں کے لیے مثال بنے گا اور وہ خود بھی ان قوانین کی پابندی کریں گے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، خصوصاً جب وہ موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کے ساتھ کھل کر بات کرنی چاہیے اور ان کے ساتھ بات چیت کر کے ان کی حفاظت کے بارے میں خدشات کا اظہار کرنا چاہیے۔ اگر بچے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو والدین کو انہیں مناسب طور پر روکنا ،تشویق و تنبیہ کرنی چاہیے اور ان کی حفاظت کے لیے درست رہنمائی کرنی چاہیے۔
جذبے کی حوصلہ افزائی :والدین کو اپنے بچوں میں ذمہ داری کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ خود بھی اپنی اور دوسروں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند رہیں۔والدین کی یہ تربیت نہ صرف ان کے بچوں کی حفاظت کے لیے مفید ہے بلکہ پورے معاشرے میں ٹریفک قوانین کی پابندی اور حادثات کی روک تھام کے لیے بھی اہم ہے۔
تعلیمی ادارے اور کمیونٹی لیڈرز:اسکولوں اور کالجوں کو اپنے نصاب میں روڈ سیفٹی کی تعلیم کو شامل کرنا چاہیے۔ کمیونٹی لیڈر ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ لاپرواہ ڈرائیونگ کے نتائج کے بارے میں بات چیت میں نوجوانوں کو شامل کرنے سے رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
سوار:اس مساوات میں سب سے اہم عنصر خود سوار ہیں۔ انہیں اس ذمہ داری کو پہچاننا چاہیے جو موٹر سائیکل چلانے کے ساتھ آتی ہے۔ ہیلمٹ پہننا، رفتار کی حد کی پابندی کرنا، اور ٹریفک کے ضوابط کا احترام کرنا نہ صرف قانونی تقاضے ہیں بلکہ ان کی حفاظت اور دوسروں کی حفاظت کے لیے ضروری عمل ہیں۔
عوامی بیداری کی مہمات:عوام کو تیز رفتاری کے خطرات اور روڈ سیفٹی کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی مسلسل کوششیں ثقافتی رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ ان مہمات کو وسیع تر سامعین تک پہنچنے کے لیے سوشل میڈیا، روایتی میڈیا، اور کمیونٹی ایونٹس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ایک اجتماعی ذمہ داری:تیز رفتار موٹر سائیکلوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ سڑکوں کو محفوظ بنانے میں حکومت، نافذ کرنے والے ادارے، تعلیمی ادارے، کمیونٹی لیڈرز، اور خود سوار سب کا کردار ہے۔حکومت کو ٹریفک کے نفاذ کے لیے مزید وسائل مختص کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ پولیس ٹریفک کے حجم کو سنبھالنے کے لیے لیس ہو۔ سخت قوانین اور خلاف ورزیوں کے لیے سخت سزائیں رکاوٹ کا کام کر سکتی ہیں۔ مزید برآں، سڑک کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا، جیسے کہ مخصوص موٹر سائیکل لین بنانا، حادثات کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
اپنی جان گنوانے والے کمسن نوجوان لڑکے کا سانحہ تیز رفتار موٹر سائیکلوں سے لاحق خطرات کی واضح یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ یہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔ اگرچہ حکومتی ضابطے اور نفاذ اہم ہیں، تبدیلی بالآخر خود سواروں سے شروع ہوتی ہے۔ ذمہ داری اور ٹریفک قوانین کے احترام کے کلچر کو فروغ دے کر، کشمیر اپنی سڑکوں کو دکھ کے راستوں سے حفاظت اور آزادی کی راہوں میں بدل سکتا ہے۔ نوجوان سواروں کی زندگی اور ان کے خاندانوں کا ذہنی سکون اسی پر منحصر ہے۔
(مضمون نگارمبارک ہسپتال میں سرجن ہیں اور مختلف اخلاقی اور سماجی مسائل کے مثبت ادراک کے انتظام میںسرگرم ہیں)
[email protected]