آج سے16سال قبل وادی میں جب بی ایس این ایل کی موبائل فون سروس شروع ہوئی تھی، تو عام لوگوں کو یہ گمان گزرا تھا کہ وہ ترسیل و ابلاغ کے حوالے سے ایک بڑی جست لگا کر قدامت کی سرحدوں کو پھاند رہے ہیں،لیکن روزِ اول سے ہی ثابت ہوگیا کہ بھارت سنچار نگم لمیٹڈ کی سروس لمیٹڈ ہونے کے ساتھ ساتھ صارفین کی ضروریات اور جذبات کے معاملے میں نہ صرف تہی دامن واقع ہوا ہے،بلکہ بے حسی کے پنگوڑے جھولنے میں مصروف ہیں۔ پہلے پہل بنیادی ڈھانچے کی کمی کو وقت کے ساتھ ساتھ پورا کرنے کی بی ایس این ایل کی یقین دہانیوں پر صارفین بھی صدق دلی کے ساتھ اعتبار کر رہے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ یقین دہانیاں بھونڈا مذاق ثابت ہوئیں، کیونکہ سروس میں کسی قسم کی بہتری پیدا ہونے کی بجائے بگاڑ میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگرچہ اس وقت وادی کے سیل فون مارکیٹ میں مزید کئی کمپنیاں بھی موجود ہیں اور جیو نے دھوم مچا رکھی ہے ۔ تجارتی اصولوں کی بناء پر ان کی سروس بہتر ہونی چاہئے تھی مگر صارفین کو خاطر میں نہ لانے کا جو مزاج اس ادارے نے ابتداء سے ہی اختیار کیا، اْس میں نہ تو کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی ابھی تک دور دور تک اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ فی الوقت بی ایس این ایل کی ناقص سروس نے صارفین کے ناک میں دم کر رکھا ہے اور مشکل سے ہی کوئی کال وقت پر کنیکٹ ہو کر ضروری وقت تک برقرار رہتی ہے، جبکہ فون کرنے والے شخص کو ایک کال بار بار کرنا پڑتی ہے اور اْسے دوہری تہری اْجرت ادا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ اخبارات کے ذریعے آئے دن ادارے کے ذمہ داروں کو مطلع کیا جاتا ہے لیکن ان شکایات پر نہ تو کوئی کارروائی ہوتی ہے اور نہ ہی ادارے کی جانب سے کوئی معقول جواب دیا جاتا ہے، بلکہ اکثر اوقات شکایتی سیل اور ادارہ کے ذمہ دار اپنے کنکشن مصروف کر کے رکھتے ہیں اور صارفین صرف بٹن دبانے میں مصروف رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔وادی بھر میں کنیکٹوٹی کا بحران مسلسل جاری ہے اور اکثر اوقات ایسے اکثر سیل نمبروں کے بارے میں، جو باضابطہ درج ہیں اور وقت پہ بل ادا کرتے ہیں، یہ بتایا جاتا ہے کہ ’’یہ نمبر موجود نہیں ہے‘‘۔اتنا ہی نہیں ،جہاں موبائل سروس کا حال بے حال ہے اور پوری وادی میں بی ایس این ایل اپنی ناقص سروس کیلئے مشہور ہے اور شہر کے کچھ علاقوں کے علاوہ سارے دیہی علاقوں میں نیٹ ورک کا سنگین بحران پایا جارہا ہے وہیں اس سرکاری مواصلاتی کمپنی کا انٹر نیٹ اور برانڈ بینڈ سروس بھی انتہائی غیر اطمینان بخش ہے ۔گزشتہ کئی روز سے مسلسل شکایات آرہی ہیں کہ برانڈ بینڈ کام نہیں ہے اور کسی وقت کرتا ہے تو سپیڈ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جو صارفین کو مزید پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں میں گرفتار کرتی ہے ۔شہر کے دل لالچوک میں بھی تاجر برادری کی یہ شکایت ہے کہ ان کے براڈ بینڈ کنکشن یا تو چلتے ہی نہیں ہیں اور اگر کسی وقت خوش قسمتی سے چلتے بھی ہیں تو سپیڈ اس قدر سست ہوتی ہے کہ ای میل تک کھولنا مشکل ہوجاتا ہے اور جب متعلقہ حکام کو ان پریشانیوں کے بارے میں مطلع کیاجاتا ہے تو عین سرکاری محکموں کے مزاج کے مطابق وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں اور تکنیکی خرابی دور کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔صارفین کا کہنا ہے کہ اگر چہ وہ اس سروس کیلئے باضابطہ فیس ادا کرتے ہیں اور ماہانہ براڈ بینڈ کے عوض رقوم بھی ادا کرتے ہیں تاہم سروس غیر تسلی بخش ہوتی ہے اور اکثر و بیشتر وہ اس سروس کے حوالے سے پریشان ہی رہتے ہیں۔یہ تو شہر کا حال ہے ۔گائوں دیہات میں بسنل کا کیا حال ہوگا ،سمجھ سے بالاتر نہیںہے اور ایک آدمی بھی یہ اندازہ لگاسکتا ہے جب شہر میں بی ایس این ایل کا حال اس قدر بے حال ہے تو گائوں دیہات،جہاں ان کا کوئی پوچھنے والابھی نہیں ہے ،وہاں سروس کس قدر اطمینان بخش ہوسکتی ہے ۔اگر چہ ماضی میں کئی مرتبہ جموںوکشمیر حکومت نے مرکزی وزارت ٹیلی کمیونی کیشن کے ساتھ یہ معاملہ اْٹھایا تھا، مگر روایتی یقین دہانیوں کے باوجود کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔کشمیری صارفین کی بد نصیبی اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ دیگر حریف کمپنیوں نے بھی اپنے لیڈر مزاج کے مالی فوائد کی دیکھا دیکھی میں یہی وطیرہ اختیار کر رکھا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ سیل کمپنیاں اس طریقہ کار کے ذریعہ صارفین کی جیب کاٹ کر اپنی تجوریوں میں ماہانہ کروڑوں روپے کا اضافہ کر رہی ہیں۔ سرکار کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاشی استحصال کا بنظر عمیق جائزہ لے کر مرکزی وزارت مواصلات کے ساتھ یہ معاملہ اْٹھا کر مجبور صارفین کے مفادات کا تحفظ کر کے کارپوریٹ بددیانتی کا قلع قمع کرے۔ چونکہ آنے والے ایام میں جموںوکشمیر کے اندر کارپوریٹائزیشن کے وسیع امکانات ہیں اور موجودہ لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے اسے سب سے اہم وسیلہ تصور کرتی ہے لہٰذا اس نوعیت کے برہنہ استحصال کو فوراً سے پیشتر روکنے کی ضرورت ہے۔