بہکوں میں رہنے والے لوگوں کی حالتِ زار

ایک سرکاری حکمنامے کے مطابق ٹرائبل مائگریٹری سروے کرانے مطلوب تھی اس سلسلے میں ضلع انتظامیہ کولگام نے پہل کر کے مختلف سپر وائزرس کی نگرانی میں اساتذہ کے مختلف گروپ تشکیل دے دیئے ۔جنہیں ہدایت دی گئی کہ وہ مختلف بہکوں میں جا کر ٹرائبل لوگوں کا اندراج کریں ۔اور اس سروے کے لئے درکار معلومات درج کریں۔مجھے بھی ایک گروپ کے ساتھ بیج دیا گیا ۔4 جولائی کو صبح ساڑھے سات بجے ہم گھر سے اس پیدل سفر پر روانہ ہوئے۔تقریباً سات کلومیٹر کا سفر طے کر کے چھرنبل پہنچے۔چھرنبل میں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد ہم نے دریا پار کیا اور چارکھل کے مقام پر پہنچ گئے اور چار کھل سے آگئے بڑھ کر ناگنی والی پہنچ گئے۔اس دوران سفر اگر چہ کافی دلچسپ رہا تاہم تھکاوٹ اس قدر ہوئی کہ مزید آگے بڑھنے کی ہمت نہ رہی۔اس کے بعد ہم نے چند لوگوں کے گھوڑے کراے پر لے لیے اور سوکڑ کے مقام پر تقریبا ساڑھے تین بجے پہنچ گئے۔جہاں ہم نے ڈیرا جمایا ۔اگلی صبح ہم نے ان ٹرائبل لوگوں کا انداج کرنا شروع کر دیا ۔سب سے پہلے ہم نے 5 جولائی کو  سوکڑ نام کی بہک میں بیٹھے لوگوں کا اندراج کیا ۔اور اس کے بعد چار کلومیٹر کا سفر طے کر بڈدلو پہنچے اور پورا دن گھومتے رہے اور ان ٹرائبل لوگوں کا انداج کرتے رہے۔ان بہکوں میں کوٹھے ایک دوسرے سے قدرے دور تھے ۔شام ہوتے ہوتے ہم ٹھانڈا پہنچے ۔اور اس کے بعد ہھر سوکڑ کے مقام پر پہنچ کر ایک مقامی استاد سراج الدین پسوال کے ڈھیرے پر قیام کیا ۔اس سروے کو دوران اس مقامی استاد نے کافی زیادہ مدد کی ۔6 جولائی کو ہم ڈھنگی سر نامی بہک کی طرف روانہ ہوئے ۔یہ بہک کافی زیادہ اونچائی پر واقع ہے ۔اس کے بعد ہم دھنگی سر ٹھٹھ گئے ۔جہاں پر بہت زیادہ برف موجود تھی اس جگہ پر کچھ بکروال گھرانے ڈیھرا جمائے تھے۔جو اپنے مال مویشیوں کو لیکر راجوری سے آئے تھے.پورا دن بہکوں میں گھومنے کے بعد ہم نے صرف چار ٹرائیل کنبوں کا اندراج کیا۔ایسا صرف اس لیے کیونکہ بکروال لوگوں کے چار ڈھیرے دو پہاڑی ٹیلوں پر آباد تھے۔7 جولائی کو ہم نے جابا،ناکھا، ترکنا والی، اور چار کھل میں بیٹھے خانہ بدوشوں کا اندراج کیا۔8 جولائی کو میں اور میرے ساتھی جنگلوں کے راستے سے گزرتے ہوئے پچ کھل پہنچے جہاں ہم نے چند خانہ بدوشوں کا اندراج کیا اور شام ہوتے ہوتے ڈھیرے پر واپس پہنچے ۔8 جولائی کو ہم اپنے آخری پڑاؤ لہن پتھری کی اور روانہ ہوئے ۔اس طرح سے ہم نے یہ کام احسن طریقے سے انجام دیا ۔اور 9 تاریخ کو صبح اپنے گھروں کی طرف گھوڑوں پر سوار ہوئے گھڑ سواری بھی میری لیے ایک نیا اور بہت اچھا تجربہ رہا 
○اس سروے کے دوران ہمیں ان بہکوں میں رہنے والے لوگ کی زندگیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔اگر چہ اس سروے سے پہلے بھی ہم یہ بات سمجھتے تھے کہ ان بہکوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی قدرے مشکل ہے تاہم یہ لوگ اس قدر مصائب اور مشکلات سے دوچار ہونگے اس کا ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا۔اس دوران ہمیں ایسے کوٹھے بھی ملے جو مربع چالیس فٹ تھے اور جن میں پندرہ پندرہ لوگ رہتے تھے۔ان کوٹھوں کی حالت دیکھ کر غربت کے معنی سچ مچ سمجھ میں آتے ہیں ۔کہیں جگہوں پر اگر چہ خواتین مختلف چشموں اور نہروں سے پانی حاصل کرتی ہیں ۔تاہم کچھ ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں پر خواتین کو دور دور سے سروں پر پانی لانا پڑتا ہے ۔ان بہکوں میں نلکوں کے ذریعے پانی کا بالکل بھی تصور نہیں ہے۔یہ لوگ بجلی سے محروم ہیں یہ لوگ یا تو سولر لیمپ یا لکڑی جلا کر روشنی کرتے ہیں۔لیکن سولر لیمپ بھی سارے لوگوں کے پاس موجود نہیں ہیں سرکار کو چاہئے کہ ان لوگوں کے لیے مفت سولر لمپوں کا انتظام کیا جائے تاکہ یہ بہکوں میں رہنے والے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔یہ بہکیں باقی دنیا سے بالکل کٹی ہوئی ہیں کیونکہ ان میں ابھی کہیں پر بھی ٹاور وغیرہ نصب نہیں کئے گئے ہیں ۔ان بہکوں میں اگر چہ سیزنل سینٹرز قائم کیے گئے ہیں لیکن ان میں صرف پرائمری سطح تک کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے تاہم مڈل اسکول اور ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے طلبا کو تقریباً بیس کلومیٹر کا پہاڑی راستہ طے کر کے منزگام پہنچنا پڑتا ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر طلاب پرائمری سطح کی تعلیم کے بعد ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔لوگوں کا ماننا تھا کہ انہیں سب سے زیادہ مشکلات صحت کے حوالے سے اٹھانی پڑتی ہیں کیونکہ مزکرہ بہکوں میں  رہنے والے لوگوں کو چھوٹی سی چھوٹی بیماری کے لیے منزگام کا رخ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان بہکوں میں محکمہ صحت عامہ کا کوئی بھی مرکز قائم نہیں کیا گیا ہے ۔نہ ہی محکمہ صحت عامہ کا عملہ انہیں کبھی دیکھنے آتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سرکار ان بہکوں میں رہنے والے لوگوں کو مکمل طور پر بھول چکی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بہکوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے سیزنل اسکولوں کی طرح سیزنل صحت مراکز بھی قایم کیے جایئںاور وقتاً فوقتاً ڈاکٹر صاحبان اور طبی عملے کو ان علاقوں میں بیج دیا جائےتاکہ ان کے مشکلات کسی حد تک کم ہوں۔ٹرابل سورے کے دوران ان سے یہ بھی پوچھا جانا مطلوب تھا کہ کیا انہیں کبھی مفت دوائی دی جاتی ہے ۔ان لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں کبھی بھی دوائی وغیرہ نہیں دی جاتی ہے۔بلکہ انہیں سر درد کی گولی کے لیے بھی بیس کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔آنکھوں میں آنسوں تب آئے جب ایک خاتون ایک اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ بیس پچیس کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد جب ہم کسی ہسپتال یا دفتر میں پہنچ جاتے ہیں تو ہمیں کمتر قوم جان کر دھتکار دیا جاتا ہے ہم کتنے کھٹن اور مشکل راستے طے کر کے کسی دفتر یا ہسپتال  میں پہنچے اس بات کا لحاظ بہت کم رکھا جاتا ہے۔ ان بہکوں میں رہنے والے لوگوں کو اپنے بنیادی رہائش گاہوں پر ہی راشن ملتا ہے جس کے لیے انہیں 15 سے بیس کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اکثر لوگوں کی مانگ تھی کہ ان کے لیے ان بہکوں میں راشن گاٹھ قائم کئے جائیں اور انہیں اے اے واے زمرے میں لایا جائے تاکہ ان کے مشکلات میں کمی واقع ہو ۔ضرورت اس امر کی ہے ان  بہکوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں ۔یہ لوگ سڑک۔ بجلی، گیس، موبائل ٹاور اور خاص کر طبی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں ۔اس سروے کے دوران اکثر لوگوں نے شکایت کی کہ انہیں مال مویشی اور بھیڑ بکریوں کے لیے کبھی بھی دوائی نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی ویکسینیشن کا کوئی جامہ منصوبہ بنایا جاتا ہے جبکہ یہ لوگ اپنے مال مویشی پالنے کے لیے ہیں ان پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں ویکسنیشن نہ ہونے کی وجہ سے  ان کے مال مویشی اور بھیڑ بکریاں مر جاتی ہیں۔ان بہکوں میں رہنے والے لوگوں کی اس روداد سے محکمہ پشو پالن اور صحت عامہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے ۔سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لوگوں کی بہبودی اور سہولیات کے لیے ایک جامع منصوبہ عمل میں لایا جائے تاکہ یہ لوگ بھی راحت کی سانس لیں۔ان لوگوں کے لئے طبی سہولیات مہیاکرانا وقت کی اشد ضرورت ہے امید ہے کہ اس ترائبل سروے کی بدولت ان بہکوں میں رہنے والے لوگوں کی حالت ہوبہو سرکار کے سامنے آجائے گی اور سرکار اس پسماندہ طبقے کے لیے کوئی جامعہ منصوبہ ترتیب دےگی تاکہ اساتذہ کی محنت رنگ لائے گی۔میں ان سبھی اساتذہ کرام اور اس سروے سے منسلک تمام محکم جات کو مبارکاد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ مشکل کام احسن طریقے سے انجام دیا میرے لیے بھی یہ تجربہ نہ صرف نیا تھا بلکہ کسی حد تک خطرناک بھی تھا کیونکہ مختلف پہاڑی بلکہ خطرناک راستوں سے گزرنا پڑتا تھا لیکن میں نے یہ سروے اپنے ساتھیوں کی مدد سے خوشی خوشی انجام دی۔ جن مشکلات میں یہ لوگ زندگی گزار رہے ہیں اس کا بیان کرنا میرے لیے مشکل ہے ۔میدانی علاقوں میں رہنے لوگ اور خاص کر مختلف دفتروں میں رہنے والے لوگوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ان بہکوں میں رہنے والے لوگوں کو حقارت کی نظروں سے نہ دیکھیں بلکہ ان لوگوں کی قدر کیا کریں کیونکہ جن حالات میں یہ لوگ زندگی گزار رہے ہیں ۔اس کے لیے یہ شاباشی کے مستحق ہیں میں ان عظیم اور بہادر لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں ۔اس سروے کے دوران لوگوں نے پوری ٹیم کا بھر پور ساتھ دیا۔ان لوگوں کی مہمان نوازی کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔یہ لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اکثر لوگ صوم و صلواۃ کے پابند ہیں ۔
پتہ۔ اویل نورآباد