بھی ایک بار شی انشائیہ

ش۔شکیل

ہر خاص و عام کے منہ سے یہ جملہ’ ’ بز رگوں کا ذہن بچوں کی طرح ہوتا ہے‘‘ ہرکس و ناکس سے سُنا ہوگا۔ممکن ہے تجربے و مشاہدے کے معیار پر یہ جملہ کھرا اُترتا ہوا بھی دیکھا ہوگا!نہیں دیکھا ہے تو دیر سویر دیکھ لوگے اور کہہ اٹھوگے ’’لذت غم بڑھا دیجئے‘آپ پھر مسکرا دیجئے۔ ‘‘ ہمیں توبزرگ کی پہلی سیڑھی لانگتے ہی تجربہ ہو گیا ہے۔ہوا یوں کے ہماری بڑی بیٹی نور نظر بیجاپور سے کچھ دن گذارنے ہمارے گھر وقوع پذیر ہوئی۔ اُس کا ایک فرزند ارجمند ہے۔وہ یوں ہی کھیل رہا تھا۔اُسے کھیلتے دیکھ کر ہماری رگ طفلانہ پھڑک گئی۔ہم بھی اُس کے ساتھ کھیل میں شامل ہوگئے۔کچھ دیر کھیلنے کے بعد بزرگی سے اُکتا کر ہم واپس ادھیڑ عمری میں قدم رکھنے کی کوشش کرنے لگے۔دوسری طرف نواسے صاحب ونس مور (Once More)کا نعرہ اپنی بیجاپوری زبان میں کچھ اس طر ح لگایا، نانا’’بھی ایک بار شی‘‘۔ (پھر ایک بار اور) لیکن ہمارے احساسات جذبا ت معاشیات کے فار مولے کی طرح عروج سے تنزل کی طر ف راغب ہوگئے تھے۔تمام جوش و جذ بہ اُکتاہٹ کی منزل لانگ کر بے زاری کے بیا بان میں سکونت اختیار کر گیا تھا ۔’’بھی ایک بار شی‘‘ سے جیسے تیسے دامن بچا کر نکلا تو دل و دماغ اور ذہن خیا ل کے قفس میں ’’بھی ایک بار شی‘‘ قید ہو گیا۔ خیال کے قفس میں بیٹھے سوچ رہے تھے۔
جہاں کہیں ذی شعور انسان ذہنی جسمانی یا عملی کام سے لطف اندوز ہوتا ہے۔وہاں وہ ’’بھی ایک بار شی‘‘فارمولا اپنا کر لذت حاصل کرتا رہتا ہے۔پھر اُس کے بعد اُکتاہٹ اور بے زاری کے سمند ر یا کھائی میں گرجاتا۔کچھ دن کے بعد کھا ئی یا سمندر سے نکل آتا ہے تو ’’بھی ایک بار شی‘‘وہی جسمانی ‘ذہنی اور عملی کام کرکے لذت حاصل کرنا شروع کردیتا ہے۔ ہم گانے نغمے اور غزلیں سننے کا شوق رکھتے ہیں۔ اپنی پسند کے گانے نغمے اور غزلیں کئی دفعہ’’ بھی ایک بار شی‘‘ کے فار مولے کے تحت سُن کر دل کو شاد اور روح کو پُر نور کر لیتے ہیں۔اُس کے بعد وہی اُکتا ہٹ اور بے زاری کے بازار میں کھڑے ہوکر ادھر اُدھر دیکھتے ہو ئے اپنے آپ سے کہتے ہیں’’ اس وقت تو طبیعت بھر گئی ہے ’’بھی ایک بار شی‘‘ کبھی اور لطف اندوز ہوجائے نگے۔‘‘
لذت دہن بھی کیا چیز ہے!وہ بھی’’ بھی ایک بار شی ‘‘فارمولے کے مطابق عرو ج و تنزل کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ کوئی لذ یذ چیز زبان پر رکھتے ہی مزہ دینے لگتی ہے تو بار بار وہ چیز کھا کر شکم سیر ہو جاتے ہیں لیکن دل و دماغ کے کسی کونے میں’’ کیا لذیذ کھانا تھا کاش میں اور کھا پاتا ۔‘‘ صدائے باز گشت بن جاتی ہے۔ یعنی پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن ’’بھی ایک بار شی‘‘کھانے کی تشنگی باقی رہتی ہے۔ ہمیں اس کا تجربہ ایک دعوت میں ہوا۔ دعوت میں بہت ہی لذیذ بیریانی بنائی گئی تھی ۔ آج تک ویسی بیریانی ہم کو کھانی تو چھوڑ و دیکھنے کو تک نہیں ملی۔ ہمارے سامنے ایک صاحب شاید اُنہوں نے بھی ہماری طرح اپنی زندگی میں ویسی بیریانی نہ دیکھی تھی اور نہ کھائی تھی۔ اُن صاحب نے بیریانی بڑی چھوٹی آنت کے علاوہ غذا کی نالی بھر کر حلق تک کھالی تھی ۔صاحب کو دائیں بائیں دو آدمیوں نے پکڑ رکھا تھااور وہ صاحب دائیں بائیں دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے چلے جار ہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا اُن کی مسکراہٹ کہہ رہی ہو ’’کاش میں ’’بھی ایک بار شی ‘‘بیر یانی کھا پاتا۔‘‘ یعنی آسودگی اور تشنگی اپنے مقام پر نصب ہوکر آپ ہی اپنا طواف کررہی تھی ۔ اگر کوئی کسی سے یہ کہہ دے’’کیا بار بار یہی سن رہاہے‘کیا یہی بار بار کھار ہا ہے کیا یہی بار بار کر رہاہے۔‘ ‘ دوسرا کہے گا ’’مجھے ایسا کرنے میں مزہ آرہا اس لئے بار بارکررہا ہوں۔‘‘آگے بے زاری ظاہر کرتے ہوئے کسی کو روکنے کے خاطر ’’اس کے علاوہ بہت کچھ سننے ‘کھانے اور کر نے کے لئے ہے۔‘‘کہہ دے گا تو وہ جھلا کر کہے گا۔’’تو جو باربار پاگل پن کے کام کرتے رہتاہے تو کیا اُس وقت میں تجھے ٹوکتا ہوں۔۔نہیں نا۔۔تو بھی ’’بھی ایک بار شی ‘‘مجھے بھی مت ٹوک سمجھ گیا کیا۔‘‘
لاکھوں کھربوں چرند پرند‘جانور اور بنی نوع انسان دنیا میں رہ رہے ہیں۔یہ سب کے سب جنسی عمل کے’’بھی ایک بارشی‘‘کے فارمولے کا نتیجہ ہے۔نباتات میں بھی یہی ’’بھی ایک بار شی‘‘۔ کار فرما ہے۔ اگر یہ فامولا نہیں ہوتا تو ہر طرف صحرا ہی صحرا ہوتا۔خدا بھی اپنی خدائی کے کرشمے ’’بھی ایک بار شی ‘‘کے فارمولے کے تحت ہر روز دیکھتا رہتا ہے۔ دن کو رات میں زم کرکے ’’بھی ایک بار شی‘‘ صبح بناتا ہے۔ہر موسم کو بھی ایک کے اندر ایک ضم کر کے نکالتے ہوئے ’’بھی ایک بار شی‘‘ بدلتے رہتا ہے۔ اور اپنی قدرت کے جلوے دکھاتے رہتا ہے۔انسا ن دیکھتا ہے سنتا ہے پھر بھی اُس کا قائل نہیں ہوتا۔خدا کہتا ہے ’’بھی ایک بار شی‘ ‘ میں تمہیں پیدا کرونگاتم سے تمہاری زندگی کا حساب مانگونگا۔‘‘لیکن انسان ’’ یہ زندگی کے میلے دُنیا میں کم نہ ہونگے ‘افسوس ہم نہ ہونگے ۔‘‘کہتا ہوا ’’بھی ایک بار شی‘‘دنیا کے میلے میں گم ہوجاتا ہے۔
���
اورنگ آباد (مہاراشٹر)
موبائل نمبر؛9529077971