چلو مانا کہ انہوں نے نعرہ لگایا کہ اب کی بار مودی سرکار اور عوام نے ہاں میں ہاں ملا کر کہہ دیا کہ یہ لو جی ووٹ،سنبھالو۔پھر بات چھیڑی کہ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ تو لوگ پھولے نہ سمائے یہ سوچ کر کہ کچھ نیا ہونے والاہے ۔مودی مہاراج کے گُن گان میں مصروف ہوگئے اور کسی نے مودی سرکار کی مخالفت کی تو اسے بھکت جنوں نے چیتائونی دی کہ چلو مراری کرو تیاری ۔پاکستان کی گاڑی تیار ہے سامان باندھو اور سیٹ پر بیٹھ جائو ، سیٹ نہ ملے تو اوور لوڈ میں کھڑے رہو لیکن بھارت ورش کا ٹایم خراب مت کرو ۔جو مودی مہاراج سے ٹکرائے گا وہ دیش دروہی کہلائے گا اور جو مودی کا یا ر نہیں وہ بھار ت دیش کا غدار ہے۔مخالفت کرنا تو دور کی بات جو بیف مانگے گا ،جو بھارت ماتا کی جے نہیں گائے گا جو کنول پھول کی طرف داری نہیں کرے گا اور جو دیش کے لئے سختی برداشت نہیں کرے گا وہ دیش کا ناگرک نہیں۔ پھرترنگ میں آکر مودی سرکار نے معاشی جنگ کا بگل بجایا اور نوٹ بندی کا اعلان کردیا ۔لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر جان دیتے گئے لیکن کسی کو اے ٹی ایم سے پیسہ نہ ملا ۔البتہ جو لائن میں کھڑے نہیںتھے وہ خاموشی سے نکالتے رہے اور ایسے میں سب کا تو نہیں ہوسکا البتہ کچھ کا وکاس ہوگیا۔کچھ کا کالا دھن بنک میں جمع ہوگیا اور دھن نے سفید رنگ اپنا لیا ،کچھ بنکوں کے ملازم افسران تھے ان کا بھی وکاس ہوگیا کہ ادلا بدلی میں وہ بھی دس پندرہ فیصد کمیشن لے کرذاتی وکاس کے تخت پر کھڑے ہوگئے۔کئی ایک تو سادھو سنت بنے پھرتے تھے وہ مودی مہاراج کے گُن گاتے آنکھ مارتے رہے اور بعد میں جب ہم نے شکایت کی کہ اچھے دن کہاں گئے تو سمجھانے لگے کہ ہم نے تو ساتھ ساتھ آنکھ بھی ماری آپ تو مذاق کو سنجیدہ طرح پر لے گئے۔ کئی ایک تو سیاسی ارکان تھے انہوں نے مودی وکاس کی گنگا میں ڈبکی لگائی اور اپنے پاپ نہ دُھلے ہوں لیکن وکاس وکاس میں آگے رہے۔نوٹ بندی کی نئی نویلی دلہن نے پورے نو مہینے بعد جی ایس ٹی کو جنم دیا ۔نوٹ بندی کے وقت دیش دروہی کا الزام لگنے کے خوف سے ڈرے سہمے لوگ خاموش رہے لیکن نو مولود ابھی ڈھائی مہینے کا بھی نہیں کہ چیخ و پکار ابھر آئی۔ وہ جو مودی سرکار کا معاشی پیکج تھا اس کا بانڈہ پھوٹ گیایعنی معاشی پہاڑ کھودتے کھودتے مودی سرکار کے ہاتھوں میں جو چھالے پڑ گئے تھے اس کے نیچے سے مری ہوئی چوہیا نکلی۔جی ڈی پی میں دو فیصد کی کمی، نوکریوں کا کہیں نام و نشان نہیں ،میڈ اِن انڈیا کا شور شرابہ میڈ ان انڈیا(Mad in India) ثابت ہوا کہ بھاجپا مرکزی میٹنگ کے کارڈ بھی میڈ اِن چائنا ثابت ہوگئے۔یوجنائوں کا شور بھی کافی رہا لیکن وہ پرانی شراب نئی بوتلوں میں پیش ہوئی ثابت ہو گئی ؎
بہت شور سنتے آئے تھے دل کا
جو چیرا تو ایک قطرۂ خون نکلا
نیشنل گرل چائلڈ پروگرام کا نام بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو ،نرمل بھارت ابھیان سوچھ بھارت ابھیان بن گیا،اندرا آواس یوجنا پرھان منتری آواس یوجنا بنی ۔خیر یوجنائیں ایسی تیزی سے تبدیل ہوئیں، ہم سمجھے کوئی نیا طوفان آرہا ہے جو غریبی مٹائے گا۔ایسے میں لال قلعے سے کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات چلی ہم تو انتظار میں تھے کہ کشمیر جادو جھپی یوجنا کا آغاز ہوگا پر سرکاری غیر سرکاری کئی مشن واردِ کشمیر ہوئے۔قوم کے غم میں ڈنر کھا کر نکل گئے ۔کسی نے گلے لگانے کی یوجنا کا آغاز نہیں کیا بلکہ این آئی اے نے اپنی بانہیں کھولیں،ا پنے دلی وباگ سے کشمیر کے بہت سار ے نورتنوں کو بلوا یا، تفتیش کا روں کے گلے لگوایا، جیل پنچھیوں سے زندانوں سے معانقہ کروایا اور یہ چکر جاری ہے ۔حریت والوں سے جو تفتیش شروع ہوئی چلتے چلتے شک کی سوئیاں بار صدر، ٹریڈرس فیڈریشن لیڈر، کشمیری اسکالر ، فوٹو جرنلسٹ سے ہوتے ہوئے رشید انجنیئرتک پہنچیں ،آگے کا سفر اوپر والا جانے۔
صحافت کے مچھلی بازار میں اہل کشمیر کو نشانہ بنانے کا کام جاری رہا ۔کبھی پاکستانی فنڈنگ کے نام پر کہیں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے نام پر اور پھر ہم بھی بڑے نا شکرے نکلے ۔کبھی مرکزی فورس کا شکریہ ادا نہیں کیا ۔ اب بھی وقت ہے ہم سمجھ جائیں کہ فورس والے ہمارے لئے کتنا کچھ خرچ کر رہے ہیں بلکہ کس قدر دیالو ہیں۔مانا کہ کبھی کبھار جھوٹ بھی بولتے ہیں۔منظور خان کو گرفتار کرکے انکار کرتے ہیں لیکن عدالت عالیہ کے سامنے جھوٹ تھوڑی بولیں گے۔عدالت میں کھڑے ہوکر جو کچھ کہا سچ سچ کہا اور اپنی فراخدلی کا ثبوت، اس بیان میں دے دیا کہ ہم نے بتیس دن میں ۱۳؍ لاکھ پیلٹ چلائے۔جبھی تو ہم سوچے تھے کہ اہل کشمیر کے بدن رنگین کیسے ہوگئے؟ آنکھیں کیسے ڈوبیں؟ چہرے کیسے سوجھ گئے؟
مانا کہ مودی سرکار میںپرانی شراب کو نئی بوتل میں کرکے بوتل کے اوپر نیا لیبل بھی چڑھایا گیا اور پہلے سے چلتے نیشنل گرل چائلڈ پروگرام کا نام بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو رکھا لیکن اس سے بھی زیادہ کچھ کیا گیا۔نام ہی نہیں بدلا گیا بلکہ کام میں بھی تبدیلی کردی گئی۔کہاں بیٹی پڑھائو کا نعرہ دیا گیا لیکن اصل میں بیٹی پِٹائو اور چوٹی کٹائو سے کام لیا گیا۔ مودی مہاراج کی اپنی کانسچیونسی بنارس میں ہندو یونیورسٹی کی طالبات کو ہوسٹل کے اندر جاکر اس قدر مارا پیٹاگیا کہ کسی کا سر کسی کا بازو تو زخمی ہے لیکن خود ان کی حیا اور عصمت کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ادھر یوگی جی بیان پر بیان دے رہے کہ ہر عورت کی حفاظت میرا کرتویہ ہے لیکن پہلے بچے ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کے سبب مرے اب لڑکیوں کی حفاظت کا فقدان ہے ۔ دانش گاہ کا سربراہ نت نئے الزامات کے ساتھ یوگی سرکار کا بچائو کر رہا ہے یعنی شاہ سے زیادہ کوئی وفا دار دیکھنا ہو تو بی ایچ یو کے وائس چانسلر کا دیدار کرو۔ویڈیو سامنے ہے لیکن اسے کہیں بھی مار کٹائی دکھائی نہیں دیتی۔لگتا ہے آنکھوں لگا سرمہ بھی زعفرانی ہوگیا ہے۔بنارس میں تو لاٹھی سے کام لیا گیا اپنے ملک کشمیر میں قینچی چل رہی ہے ۔عمر کا کوئی لحاظ نہیں بلکہ دروغ بر گردن راوی جس نے یہ خبر پھیلا دی کہ کسی ملزم کو پکڑنے کی کوشش کی گئی تو فوجی دنا دن گولیاں برساتے آگئے۔کیا پتا مودی جی کی سوچھ بھارت یوجنا کی آڑ میں عورتوں کے سر بھی صاف کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہو۔کسے نہیں پتہ یہاں بال کیا بات ہے سر ہی کاٹے گئے،جگر میں تیر چلے ، دلوں میں نیزے آر پار اترے ،اور رہی سہی کسر مرکزی تحقیقاتی ایجنسی نے پوری کی کہ لوگوں کی عزت پر بھی دھاوا بولا گیا۔کہاں حریت کے لوگ کہاں یونیورٹی اسکالر اور اب تو دلی سرکار کے آئین پر قسم کھا کر اسمبلی پہنچنے والے ممبر پر بھی بھروسہ نہیں کہ تم بھی مملکت خداداد سے سپاری لے کر ملک کشمیر میں پتھروں کا کاروبار کرتے ہو ،مطلب ہے ؎
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں
ان کو زبان ملی تو ہم پر برس پڑیں
ویسے سینا پتی نے ایک دن کہا تھا کہ جلد ہی ناری سینا میدان عمل میں کود جائے گی اور مودی سرکار تو کچھ قدم اور ہی چلی کہ وزارت دفاع کا قلمدان ہی ناری کے سپرد کر دیا ۔تب تو پُرُش کافی گھبرائے تھے کہ کہیں گھروں کی ناریاں اپنے لوگوں کا کریک ڈائون ہی نہ کر ڈالیں اور مردوں کی گردن پر بندوق تان کر انہیں اٹھک بیٹھک اور سودھان ویشرام کا آرڈر نہ دیں ڈالیںلیکن خاتون وزیر تو چند قدم اور چلیں کہ سوچھ ابھیان کا پالن کرنے کا آدیش جاری کردیا ۔خود فوجیوں سے ہی صفائی مہم میں بھرپور حصہ لے کر بھارت کو سوچھ بنانے کے اقدام کرنے کے لئے کہا۔اب تو سینا مخمصے میں ہے کہ وہ فرصت کے اوقات میں اپنی بندوقیں صاف کردیں یا جھاڑو ہاتھ میں اٹھا کر د لی کے مکھیہ منتری جیسے کارکنوں کا روپ دھار لیں۔
بھاجپا والے کہتے پھر رہے ہیں کہ مودی کا نیا بھارت خواب ۲۰۲۲ تک مکمل ہوگا ۔جانے اپنے سیاست دان خواب کیوں دیکھتے اور دکھاتے ہیں ۔کبھی اپنے ملک کشمیر میں نیا کشمیر تعمیر کرنے کا خواب دیکھا گیا ۔کہیں آج کل مرد مومن کا خواب بیچا جا رہا ہے۔یہ اور بات ہے کہ نیا کشمیر اور مرد مومن کا خواب دیکھتے دکھاتے ہم پرانے کشمیر کو ہی کھو بیٹھے۔پرانے کشمیر میں خونریزی نہیں تھی لیکن اب تو لاشوں کا حساب بھی بھول گئے۔کون جانے مودی جی کا نیا بھارت خواب کہاں لے جائے ؟؟؟ویسے سنا ہے خام تیل کی بین الاقوامی قیمت جب نوے ڈالر تھی تب پرچون میں پٹرول بہتر روپے بکتا تھا لیکن اب پچپن ڈالر میں پرچون اسی روپے لیٹر بکتا ہے۔تب گیس سلینڈر تین سو نوے روپے بکتا تھا اب سات سو چوراسی روپے بکتا ہے۔ریلوے پلیٹ فارم ٹکٹ دو روپے میں ملتا تھا اب بیس روپے میں ملتا ہے۔نوٹ بندی کے بعد کوئی چالیس لاکھ روزگار ختم ہوگئے پھر بھی سرکار اسے کامیاب عمل قرار دیتی ہے ۔کسی منچلے نے شاید اسی لئے یہ بات عام کردی کہ نوٹ بندی اب ہاورڈ یونیورسٹی کے بزنس اسکول میں پالیسی تباہی کے طور پڑھائی جائے گی۔سنا ہے اس خبر سے بھکت جن شادیانے منا رہے ہیں کہ مودی جی کا نام دور دراز ممالک اور معروف دانش گاہوں میں لیا جا رہا ہے لیکن ووٹر نیا نعرہ لے کر میدان میں اترے ہیں اور چیخ رہے ہیں ؎
کنول کا جو پھول ہے
ووٹروں کی بھول ہے
یہ فاروق ڈار بیچارہ قسمت والا ہوتا تو جیپ کے بانٹ سے کیوں بندھتا؟سچ پوچھو تو ہمیں لگتا ہے بیچارے کی تقدیر میں کہیں جھول ہے۔ایک تو ملک ملک، شہر شہر فوج کی بدنامی کا باعث بنا۔پھر بشری حقوق ادارے نے معاوضے کی سفارش کی لیکن سیاستدان بھڑک اٹھے کہ یہ تو سنگ باز تھا اسے تو مرکزی ایجنسی کے سپرد ہونا چاہئے ۔ اب تو پولیس اور انتظامیہ نے بھی سند جاری کردی لیکن بھاجپا نائب وزیر اعلیٰ کو اپنی انتظامیہ پر بھروسہ نہیں کہ اسے فاروق ڈار باقاعدہ سنگ باز نظر آتا ہے۔وہ اس قدر یقین سے کہتا ہے مانو خود ہی سرحد پار دھکیل آیا ہو کہ جا بیٹاسنگ بازی کی تربیت مملکت خداداد سے حاصل کر ۔جب سنگ بازی میں کوئی ڈپلوما ڈگری حاصل کرکے آئے تو یہاں لوٹنااور فاروق ڈار بیچارہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا۔الیکشن بائیکاٹ والے اسے لتاڑتے ہیں کہ کیوں ووٹ دینے گیا تھا اور نرمل سنگھ اسے سنگبازی کے لئے مرکزی ایجنسی کے حوالے کر کے ہی دم لے گا شاید۔ویسے نرمل سنگھ بھی کیا آفت کا پرکالہ ہے کہ فاروق کی سنگ بازی اسے دکھائی دی لیکن آر ایس ایس کارکنان اور ڈوگرہ سبھا والنٹیئر کی طرف سے ہتھیاروں کی نمایش نظر نہیں آتی۔خطرناک شستر لے کر مہاراجہ ہری سنگھ ڈے منانے نکلنا اسے بہت ہی نرمل اور کومل کاروائی دکھائی دیتی ہے لیکن سنگ بازی کا بے بنیاد الزام بہت ہی خطرناک!!!ہو نہ ہو اس خبر کا اثر نرمل جی اپنے دل پر لئے ہوئے ہیں کہ ملک کشمیر کی وزارت میں بھاجپا پھیر بدل کرنے والی ہے۔ آیا رام گیا رام والی مشق ہونے والی ہے۔کچھ کا پتہ کٹے گا کچھ کو شاباشی ملے گی۔ایسے حالات میں کون جانے دل کو کون روئے جگر کو کون پیٹے۔ کنول کے پھول میں کس کے نام مہک لکھی ہے اور کس کی پتیاں سوکھ کر گر جائیں گی۔فی الحال کشمکش جاری ہے۔
رابط[email protected]/9419009169