ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری
بون میروانسانی جسم کی ہڈیوں کے درمیان پایا جانے والا ایک اسپنج دار مادّہ ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں جسم کے زیادہ تر خون کے خلیات تیار اور محفوظ ہوتے ہیں،یہ خون کے سرخ و سفید خلیات اور پلیٹلیٹس بناتاہے۔یہ مادّہ ہڈیوں میں اسٹیم سیل اور دیگر مادّے تیار کرتا ہے،جس کے نتیجے میں انسانی جسم میں خون کے خلیہ بننے کا عمل شروع ہوتا ہے،واضح رہے کہ خون بنیادی طور پر تین خلیات (cells ) سفید خلیات ،سر خ خلیات اور پلیٹلیٹس خلیات سے مل کر بنیاد ہے ۔ہرقسم کے خون کے خلیہ کا ایک اہم کام ہوتا ہے۔٭خون کے سرخ خل یےجسم کےتمام بافتوں(Tissues) تک آکسیجن لے جاتے ہیں۔٭پلیٹلیٹس خون کے جمنے میں مدد کرکے خون بہنا بند کرتے ہیں۔
٭سفید خون کے خلیاانفیکشن سے لڑتے ہیں۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا ہے؟:۔بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک طبی طریقۂ علاج ہے جو کسی کے غیر صحت مند بون میرو کو صحت مند خلیوں سے بدل دیتا ہے۔متبادل خلیات ڈونر کے جسم سےلیے جاسکتے ہیں۔ یہ جسم میں خون کے سرخ خلیات،سفید خون کے خلیات اور پلیٹلیٹس بنانے کی صلاحیت کو بحال کرتا ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ کو اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بھی کہا جاتا ہے۔یہ لیو کیمیا،اے پلاسٹک انیمیا،تھیلے سیمیا، سکل سیل انیمیا،مائیلوما،لیمفوما ،خون اور مدافعتی نظام کی دیگر بیماریاں جو بون میرو کو متاثر کرتی ہیں کے علاج کے لیے کیا جاتا ہے۔بون میرو ٹرانسپلانٹ کو 1968 سے لیو کیمیا،اے پلاسٹک انیمیا،سکل سیل انیمیا،مائیلوما، لیمفوما ، مدافعتی نظام کی خرابی، اور کچھ ٹھوس ٹیومر کینسر جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔بون میرو ٹرانسپلانٹ، بون میرو کی جگہ لے لیتا ہے جو بیماری سے خراب ہوچکا ہے، جیسے لیوکیمیا یا لیمفوما، صحت مند خون کے خلیہ، کسی عطیہ دہندہ سے، ٹرانسپلانٹ کئے جاتے ہیں، تاکہ وہ نئے خون کے خلی یے تیار کریں اور نئے صحت مند میرو کی افزائش کریں۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
لیو کیمیا،اے پلاسٹک اینیمیا تھیلے سیمیا اور خون کی دیگر بیماریوں میں جب خون بننے کا عمل متاثر یا بند ہو جاتا ہے تو مریض کے سگے بھائی بہن یا والدین سے ٹشو میچ کرنے کے بعد ڈونرسےہڈیوں کا تھوڑا سا گودا مریض کو منتقل کیا جاتا ہے،یہ بون میرو دینے والے کے لیےایک بے ضرر عمل ہوتا ہے، جس سے بون میرو دینے والے ڈونر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔بون میروٹرانسپلانٹیشن کی تاریخ انتہائی پرانی ہے،غیر صحت مند اعضا کی پیوندکاری اور اس کی جگہ صحت مند اعضا لگانے کا خیال طب کی تاریخ میں کوئی نیا نہیں،محققین نے اس پر عرق ریزی سے تحقیق کی، تاہم 1940 کی دہانی تک بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک عام خیال نہیں بن سکا، دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد، لوگوں کوجلد کی پیوند کاری اور خون کی منتقلی وغیرہ کی ضرورت تھی۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے محققین نے مطالعہ کیا کہ جنگ کے دوران تابکاری کے اثرات کی وجہ سے بون میروناکام ہوا یا موت کاسبب بنا۔تحقیق سے اس امر کا تعین ہوا کہ جسم کا کسی دوسرے شخص کے اعضاء یا خون کو مسترد کرنا مدافعتی نظام کی وجہ سے تھا۔ 1950 کی دہائی میں، محققین نے تابکاری کے سامنے آنے والے جانوروں میں بون میرو گرافٹس کے ساتھ تجربہ کیا۔ ان مطالعات میں مریضوں کے ساتھ بھی تجربات کئے گئے،تاہم ڈونر کے میرو کوجسم کے مسترد کرنے کی وجہ سے یہ طریقہ کار ناکام ہو گئے تھے۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ بون میرو ڈونر کا جینیاتی میچ ہونا ضروری ہے۔1956میں، پہلا کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ ڈاکٹر E. Donnall Thomas نے Coopers town ,New Yorkمیں کیا۔ لیوکیمیا کے شکار ایک بچے کو اس کے ایک جیسے جڑواں بچوں سے بون میرو کے ساتھ ٹرانسپلانٹ ہوا۔ دو سال بعد، فرانسیسی امیونولوجسٹ ڈاکٹر جین ڈاؤسیٹ نے human leukocyte antigens (HLA) دریافت کیا۔
پروٹین کا یہ گروپ مدافعتی نظام کو منظم کرتا ہے اور یہ پہچانتا ہے کہ جسم میں کیا ہے اور کیا نہیں۔ وصول کنندہ اور عطیہ دہندہ کے درمیان HLA کی مطابقت کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لئے ضروری ہے۔1968میں،میچ کئے جانے والے متعلقہ ڈونر کے ساتھ پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ یونیورسٹی آف مینیسوٹا میں ہوا۔ایک بچہ جس کا مدافعتی نظام شدید متاثر تھا، اسے 9سالہ بچی کے عطیہ کردہ میروٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ میچ کا تعین وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی میں ڈاکٹر فرٹز باخ کے تیار کردہ خون کے ٹیسٹ سے کیا گیا۔
تاریخ میں اس طریقہ کار نے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی راہ ہموار کی۔ 1973 میں غیر متعلقہ (Un Related patients)مریضوں کے ساتھ پہلا کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوا۔ 1980 کی دہائی میں، نیشنل میرو ڈونر پروگرام اور بون میرو ڈونرز ورلڈ وائیڈ پروگرام کا قیام عمل میں آیا، آخر کار یہ ممکن ہوا کہ مریضوں کو غیر متعلقہ عطیہ دہندگان سے ملایا جائے۔ 1990 کی دہائی میں، نال کے خون میں ا سٹیم سیلز کے ساتھ ٹرانسپلانٹ بھی استعمال ہونے لگے۔ ہڈی کا خون مماثل ٹرانسپلانٹس کی اجازت دیتا ہے۔
حالیہ برسوں میں علاج کی پیش رفت نے آدھے مماثل ٹرانسپلانٹس کی بھی اجازت دی ہے، جیسے کہ والدین یا بچے سےبون میرو ڈونر تلاش کرنا، جو کچھ دہائیوں پہلے بہت محدود تھا،لیکن آج ایک قابلِ عمل طریقۂ علاج مانا جاتا ہے ۔امریکا میں، 22 ملین سے زیادہ ممکنہ بون میرو عطیہ دہندگان رجسٹرڈ ہیں۔ 300,000سے زیادہ کورڈ بلڈ یونٹ بھی رجسٹرڈ ہیں۔ دنیا بھر میں ایک ملین سے زیادہ بون میرو ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں۔