بلند پایہ شاعر، بے باک صحافی، نقاداور محقق حسرت موہانی کی قلندرانہ زندگی

معصوم مراد آبادی

سید الاحرار مولانا حسرت موہانی کی پیدائش یکم جنوری 1875 کویوپی کے ضلع اناؤکے قصبہ موہان میں ہوئی ۔ ان کا اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرت موہانی تھا۔ وہ سرسید کے قایم کردہ ایم اے اوکالج کے انتہائی ہونہار طالب علم تھے ۔ ایک عظیم مجاہدآزادی کے طورپر ان کی شناخت سب سے بلند ہے۔ 1921میں انھوں نے ہی ’’انقلاب :زندہ باد‘‘ کا وہ نعرہ ایجاد کیاتھا، جوآج بھی پوری دنیا میں حریت پسندوں کا سب سے محبوب نعرہ ہے۔وہ آئین ساز اسمبلی کے رکن تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ صحیح العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجودشری کرشن کے معتقد بھی تھے۔حسرت موہانی نے قلندرانہ زندگی بسرکی اور اپنی اس ادا کے گہرے نقوش چھوڑے۔ افسوس کے ملک کی جدوجہد آزادی کے بہت سے رہنماؤں کی طرح ہم نے انھیں بھی فراموش کردیاہے۔
حسرت موہانی ایک بلند پایہ شاعر،ایک بے باک صحافی، نقاداور محقق سب ہی کچھ تھے۔ انھیں ایک ناکام سیاست داں کے طورپر بھی جانا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں مختلف اور متضاد نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں سے وابستگی اختیار کی ۔وہ کانگریس ، مسلم لیگ ، کمیونسٹ پارٹی اور جمعیۃ علماء جیسی جماعتوں سے وابستہ رہے۔انھوں نے ہی سب سے پہلے ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا ۔وہ تقسیم وطن کے مخالف تھے ۔ اردو شاعری میں انھیں غزل کے ایک بڑے شاعرکے طورپر جانا جاتا ہے۔ان کی ایک عشقیہ غزل کو شہرت دوام حاصل ہوئی ، جس کا ایک شعر یوں ہے۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
حسرت موہانی اودھی تہذیب ومعاشرت میں پلے بڑھے ایک انتہائی نستعلیق انسان تھے۔ وہ لکھنؤ کے ہی ایک قصبہ موہان میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد اظہرحسین اگرچہ ایک جاگیر دار تھے لیکن حسرت کی طبیعت ’’ایک طرفہ تماشا ‘‘سے کم نہیں تھی۔ ان کا بچپن ننہیال میں گزرا۔ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کرنے کے بعد مڈل اسکول کے امتحان میں سارے صوبے میں اوّل آئے اور وظیفہ کے حقدار بنے ۔پھر انٹرنس کا امتحان فتح پور سے پاس کرکے علی گڑھ روانہ ہوگئے، جہاں ان کی زندگی یکسر بدل گئی ۔ کہا جاتا ہے کہ اودھی تہذیب کے پروردہ حسرت جب علی گڑھ میں وارد ہوئے تو کچھ اس طرح کہ ایک ہاتھ میں پاندان تھا، بدن پر نفیس انگرکھا اور پیروں میں قدیم طرز کے جوتے۔پہنچتے ہی انھیں علی گڑھ کے لونڈوں نے ’’خالہ اماں ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔یہاں تک کہ سجاد حیدر یلدرم نے ان پر ’’مرزا پھویا‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھ ڈالی۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنی خداداصلاحیتوں کی وجہ سے وہ جلد ہی علی گڑھ کے ادبی حلقوں میں مقبول ہوگئے۔اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے علی گڑھ سے نکالے بھی گئے ، لیکن اپنے موقف پر اٹل رہے۔
مولانا حسرت موہانی نے بی اے کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی علی گڑھ سے ’’اردوئے معلی‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ کا ڈکلیریشن داخل کردیا۔ مسٹن روڈ پر ایک کرائے کا مکان لے کر حسرت اپنے رسالے کی تیاریوں میں مشغول ہوگئے۔ ’ اردوئے معلی ‘ کا پہلا شمارہ جولائی 1903میں منظرعام پر آیا۔ حسرت موہانی کو علی گڑھ کالج کی انجمن اردوئے معلی کے سیکریٹری کی حیثیت سے قومی مسائل اور ادبی موضوعات پرغور وفکر کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر قدرت حاصل ہوچکی تھی۔ان کے مضامین اور شعری نگارشات اس عہد کے ادبی رسالوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔اپنے ان تمام تجربات سے ماہنامہ ’ اردوئے معلی‘ کی ترتیب واشاعت میں حسرت میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔ان کے سامنے’ تہذیب الاخلاق ‘(علی گڑھ)’ دلگداز‘(لکھنؤ)’ عصرجدید‘(میرٹھ)اور ’ مخزن‘ (لاہور)جیسے رسالوں کے نمونے تھے، لیکن اعلیٰ ادبی معیار کے باوجود ان میں سے کسی بھی جریدے کو حسرت موہانی جیسا حق پسند، بے باک، سرفروش اور آزادی کے جذبے سے سرشار ایڈیٹر نصیب نہیں ہوا، کیونکہ اس دور میں اکثر مدیران اپنے رسالوں میں سیاسی موضوعات پرمضامین کی اشاعت کو مصلحت کے خلاف سمجھتے تھے۔حسرت نے اپنی صحافت کے ذریعہ اس دور کے مسلمانوں کا مذاق درست کرنے اور ان میںآزادی کا جذبہ پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی اور ’ اردوئے معلی‘ کے ذریعہ ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا۔حسرت موہانی ایک انتہائی سادہ طبیعت کے انسان تھے۔ پارلیمنٹ کا ممبر ہونے کے باوجود انھوں نے ہمیشہ ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبہ میں سفر کیا اور بحیثیت ممبر پارلیمنٹ ملنے والی سہولتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ اکثر رکشہ پر بیٹھ کر پارلیمنٹ پہنچتے تھے۔وہ دہلی میں اخبار’وحدت‘یا ایک مسجد کے حجرے میں قیام کرتے۔ انھوں نے دستور ساز اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے75 روپے یومیہ لینے سے انکار کردیا تھااور اس پر احتجاج کیا تھا کہ ممبروں کے لیے اتنی بڑی رقم یومیہ بھتہ لیناہندوستان کے غریب اور فاقہ کش عوام کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ راولپنڈی کے ایک مشاعرے میں ایک بار انھیں پانچ سو روپے کا جو نذرانہ ملا تھا ، وہ انھوں نے ایک مقامی یتیم خانے کو عطیہ کر دیا تھا۔اسی طرح لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے انھیں جو نذرانہ پیش کیا گیا تھا ، اسے انھوں نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اتنی رقم لے کر وہ کیا کریں گے۔ ریڈیو والوں کے بے حد اصرار پر انھوں نے اس میں سے صرف تین آنے لینا منظور کیا۔ایسی قلندرانہ زندگی گزارنے والے اس عظیم انسان نے 13مئی 1951لکھنؤ میں وفات پائی اور وہیں کی خاک کا پیوند بھی ہوئے۔
جہاں میں سوگ ہے ماتم بپا ہے مرگ حسرت کا
وہ وضع پارسا اس کی،وہ شوق پاک باز اس کا
<[email protected]