طارق شبنم
برگ زریں مقبول فیروزی صاحب کی تازہ تصنیف ہے۔اسے پہلے بھی ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ،جن میں ‘’’تصوف پر اسلامی اور ایرانی اثرات‘‘ اور ‘’’گلدستہ طریقت‘‘قابل ذکر ہیں۔مقبول فیروزی ایک متحرک قلم کار ہیں جو زیادہ تر اسلامی موضوعات پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔آپ اپنی تحریر وں میں موقعہ کی مناسبت سے فارسی الفاظ اور علامہ اقبال کے اشعار کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔پیش نظر کتاب ’’برگ زریں‘‘میں متنوع موضوعات پر ایک سوتیس مضامین موجود ہیں۔جن میں سے اکثر مضامین سوشل میڈیا کی مختلف سائیٹس پر پہلے ہی شایع ہوچکے ہیں اور انہیں قارئین سے پذیر آئی بھی ملی ہے۔ زیادہ تر مضامین، تاریخ ،اسلامی تصوف ،علم طریقت اور اولیاء کرام کی عظمت سے متعلق ہیں جیسے منصور حلاج اور پھول،اسلام اور کشمیر،علم لدنی اور خرقہ پوشی،دار ہے مرد انا الحق کا وطن،درد دل،دل مردہ دل نہیں،شاہ جیلان شیخ سید عبدالقادرؒ،وحدت الوجوداور وحدت الشہود،طریقت کا مقصد،علم لدنی کی خصوصیات ،عقل سے آگے وغیرہ ۔ ان بصیرت آمیز مضامین کے مطالعے سے نہ صرف قاری محظوظ ہوتا ہے بلکہ اس کے علم میں اضافہ ہوکر ذہن کے دریچے وا ہو جاتے ہیں ملاحظہ ہو یہ اقتباس : ’’کشمیر میں حضرت بلبل شاہ ؒ نے واقعی ایک اچھا کارنامہ انجام دیا ہے، جنہوں نے یہاں کے بوڑھے راجہ رینچن شاہ کو مشرف بہ اسلام کیااور سلطان صدرالدین نام رکھ کر پہلا اسلامی حکمران بنا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں اسلام پھیلانے کا صحرا ان تاجروں اور سپاہیوں کے سر ہے، جنہوں نے بلبل شاہ ؒ سے صدیوں پہلے وادی کشمیر کو روشناس کرا یا تھا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تمام مورخین اس بات کو نظر انداز کرتے چلے آئے ہیں۔‘‘ (برگ زریں۔ ص23 )
مذکورہ مضمون میں مصنف نے مختصر مگر جامع انداز میں کشمیر میں اسلام کی آمد کے بارے میں جانکاری فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح ایک اور پر مغز مضمون ’’مسلم آشتی دل بہ اقلیمی ہند‘‘کے عنوان سے شامل مضمون میں مصنف یوں رقم فراز ہیں : ’’علامہ اقبال کا عقیدہ ہے کہ دنیا کی ترقی میں ہمیں شامل ضرور ہونا چاہے لیکن مسلمان بن کر۔عصر حاضر کی طاغوتی چالوں اور چالاکیوں سے خبر دار رہنا ہے اور سیدھے راستے پر چل کر سب کچھ حاصل کرنا ہے۔ڈاکٹر، انجینر،افسر، وزیر،امیر غریب کچھ بننا ہے لیکن قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرنا از بس ضروری ہے کیوں کہ اس دنیا میں کئے گئے ہر عمل کا حساب روز محشر اللہ کو دینا ہوگا۔‘‘(برگ زریں ص۔31) جب کہ ’’آں امام عاشقانہ پسر بتول ‘‘کے عنوان سے شہیدان کر بلا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جتنے بھی اولیاء کرام، عاشقان خدا اور عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم گزرے ہیں ان کے دل ہمیشہ شہیدان کربلا کی یاد میں گریاں رہے ہیں۔انہیں اہل بیت کی محبت کی وجہ سے ہی بلند درجات حاصل ہوئے ہیں۔ (برگ زریں، ص۔281)
پیش نظر کتاب کے مطالعے کے بعد مصنف مقبول فیروزی صاحب کی شخصیت کوبھی سمجھنے کا موقعہ فراہم ہوتا ہے اور ان کی اسلام اور علم تصوف سے گہرے لگائو اور درویشا نہ صفات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔آخر پر یہ بھی رقم کرتا چلوں کہ تواریخ اسلام اور تصوف سے دلچسپی رکھنے والے تشنگان علم کے لئے اس کتاب کا مطالعہ نہایت ہی سود مند رہے گا۔ آخر پر کتاب میںدرج علامہ اقبال کے یہ اشعار :
عشق میں پیدا ا نوائے ز ندگی میں زیروبم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بہ دم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخ گل میں جس طر ح باد سر گاہی کانم
مصنف کو اس نایاب کتابی تحفے کے لئے پر خلوص مبارک باد !
[email protected]