برصغیر کی مختصر کہانی

 ہر دور میں امہ مسلم کو نئے چیلنجزکا سامنا رہاہے اور آئند بھی رہے گا۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر کب تک یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا۔ ماہرین کی جانب سے پیش گوئی کی جارہی ہے کہ آئندہ چند سالوں یعنی 2030ء تک چین دنیا کا سپر پاور بن جائے گا ۔امریکہ کے بعد اب چین کاسپرطاقت بننا مسلم اُمہ کیلئے ایک نیا چیلنج ہے ،یعنی ’’انگریزی کے بعد چینی زبان کا راج ہوگا ‘‘ کیونکہ اکثریت میں ہردور کے سپرطاقت حکمران کی جو مادری زبان ہوتی، وہی زبان عوام پر نافذ کی جاتی۔ اس وجہ سے ہزاروں افرادکو غلامی کی زندگی بسرکرنا پڑتی ۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ تقریباً100 سال کے بعدکسی نئے خاندان کی حکومت قائم ہوتی رہی ہے ۔ اس زمرے میں ہند، بنگلہ دیش، سری لنکا،نیپال ،افغانستان، پاکستان اور بھوٹان وغیرہ شامل ہیں۔تقریباً 2500 سال قبل مسیح سے لے کر 1500 سال قبل مسیح تک دریائے سندھ اور سرسوتی کی وادیوں میں ایک بہت بڑی تہذیب بستی تھی۔ اس کو سندھ طاس تہذیب کہا جاتا ہے۔اپنے زمانے میں یہ دنیا میں سب سے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تہذیب تھی۔
سندھ طاس تہذیب کے آخری دنوں میں یا اس کے ذرا بعد وسط ایشیا سے آریہ بر صغیر میں داخل ہوئے۔ مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول ہوا اور ایک نئی تہذیب نے جنم لیا۔ اس زمانے میں مہابھارت، رامائن اور وید لکھے گئے۔ یہ دور ہندو تہذیب کی شروعات کا دور تھا۔بر صغیر سے سکندر اعظم کے جانے کے بعد موریا دور کا آغاز ہوا۔ اس کی بنیاد چانکیہ جی مہاراج نے رکھی۔ بادشاہ گر چانکیہ جی نے چندرگپت  موریہ کو راجہ بنا یا۔ اسی خاندان کا ایک مشہور بادشاہ اشوک تھا۔ یہ راجہ گوتم بدھ کا ماننے والا بنا ۔اس دور میں بدھ مت بہت تیزی سے پھیلا۔ اس کے دوران اور اس کے ما بعد یونانیوں اور کشانوں کا اثر برقرار رہا۔ تیسری صدی سے لے کر پانچویں صدی تک شمالی ہند میں گپت خاندان کی حکومت تھی۔ اُس دور کو ایک سنہری دور کہا جا سکتا ہے جس میں علوم و فنون اور ادب کو بہت فروغ ملا۔ یہ دور ہندو نشاۃ ثانیہ کا دور تھا۔اس دوران دکن میں چولا سلطنت قائم تھی۔ اس کے جنوب مشرقی ایشیا سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ہن 450ء سے 528ء  تک گپت خاندان کی تباہی اُن منگول قوموں کے ہاتھوں ہوئی جو ہن کہلاتی تھیں۔ یہ لوگ سفید رنگت کی وجہ سے ہن کہلائے۔ان کی ایک شاخ ایران میں مقیم ہوگئی جب کہ ایک گروہ ترکی چلا گیا اور ہن قبائل کی ایک شاخ یورپ جا کر آباد ہوگئی اور 450ء کے قریب پنجاب میں آکر آباد ہوئیں۔ یہاں سے چل کر یہ لوگ جمنا کی تلہٹی میں پہنچے اور اس وقت کے گپت راجہ پر غالب آئے۔ ان کے سردار کا نام تورمان تھا۔ اس نے 500ء کے قریب اپنے آپ کو مالوے کا راجہ بنایا اور مہاراجہ کہلوایا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مہر گل گدی پر بیٹھا۔ یہ بڑا بے رحم انسان اور ظالم حکمران تھا۔ اس نے لاتعدادآدمی قتل کرائےاور ظلم وستم اس حد تک بڑھ گئے کہ ہندوستان کے راجاؤں نے مہر گل کے خلاف اتحاد کر لیا ۔آخرکار مگدھ کا راجہ بالا دتیہ وسط ہند کے ایک راجہ یسودھرمن کی مدد سے بڑی بھاری فوج لے کر اس کے مقابلے پر آیا اور 528ء میں ملتان کے قریب کہروڑ کے مقام پر شکست دے کر اس کو اور اس کی فوج کو ہند سے نکال دیا۔ مہر گل کشمیر چلا گیا ۔وہاں کے راجہ نے اسے پناہ دی۔ ہن ہند میں100 برس کے قریب رہے۔
روایات کے مطابق ہن قبائل نے خود کو چرواہوں اور کاشت کاروں میں بدل دیا۔ یہ لوگ زیادہ تر گائے کی افزائش نسل کرتے تھے ،اس لیے انہیں ’’گاؤ چر‘‘ کا خطاب ملا جو کثرت استعمال سے گجر بن گیا۔انہیں نے ہندوستان میں گجرات،گوجرہ اور گوجرانوالہ کے شہر آباد کئے۔موجودہ پاکستان اور ہندکی سیاست میں ان کا اہم مقام ہے۔تیرہویں صدی میں شمالی ہند میں دہلی سلطنت قائم ہوئی۔ اس کا آغاز خاندان غلاماں نے رکھا۔ اس کے بعد شمالی ہند کا تاج خلجی، تغلق، سید اور پھر لودھی خاندانوں کے پاس گیا۔اس دوران میں جنوبی ہند میں باہمنی سلطنت اور وجے نگر سلطنت قائم تھیں۔
1526ء میں شہنشاہ بابر نے دہلی پر قبضہ کر کے بر صغیر میں مغل حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد تاج ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے پاس گیا۔ یہ200سال بر صغیر کا ایک سنہری دور تھے۔ اس دور میں علم و ادب اور فن نے بہت ترقی کی۔اس دوران جنوبی ہند میں ایک ایک کر کے مغلوں نے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔بر صغیر میں یورپی اثر 16ویں صدی سے بڑھتا جا رہا تھا۔ انگریزوں نے کئی علاقوں میں حکومت کرنا شروع کر دی تھی۔ 1857ء میں بر صغیر کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف ایک جنگ آزادی لڑی جس میں وہ ہار گئے۔1947ء میں پاکستان اور ہندوستان کو آزادی ملی۔ 1971ء میں بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہو گیا۔ 1972ء میں سری لنکا کو مکمل آزادی مل گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ کے بعداب چین کا سپر طاقت بننا برصغیر سمیت تمام مسلم ممالک کے لئے ایک نیا چیلنج ہے جس کیلئے نئی نسل نوکو تیار کیا جائے کیونکہ جب برصغیر پرانگریز نے حکومت قائم کی توانگریزی زبان کی بناء پر مسلمانوں کو غلام بنالیا گیا ، بالخصوص علماء حضرات سمیت بیشترلوگوں انگریزی زبان کو جانتے نہیں تھے ۔ عصری حالات اور زمانے کے الٹ پھیر کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو ابھرنے والی عالمی طاقت یعنی چین کو غلامی سے بچنےاور زمانے سے ہم قدم ہونے کے لئے اب چینی زبان پر بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ آنے والے نئے انقلاب چیلنج سے نمٹا جاسکے۔
����������