پروفیسر محمد سلیم قدوائی
معصوم مرادآبادی ایک معتبر اور مستند صحافی ہیں۔ ان کا شمار بجا طور پر موجود ہ دور کے ان ممتاز صحافیوں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی محنت اور اہلیت کے بل پر صحافت کی دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے۔انہوں نے صحافت کے مختلف شعبوں رپورٹنگ ،کالم نگاری اور ایڈیٹنگ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔اپنے طویل صحافتی سفر میں انہوں نے بے شمار سرکردہ شخصیتوں کے انٹرویوز بھی کئے ہیں۔انٹرویو لینا بھی ایک آرٹ ہے اور معصوم مرادآبادی اس آرٹ میں بھی کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ بلند پایہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اردو زبان وادب کی باریکیوں اور نزاکتوں سے بخوبی واقف ہیں اوراپنے عہد کے ادبی منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔زیرنظر کتاب دراصل ان کے لیے ہوئے ادبی انٹرویوز کا اہم مجموعہ ہے۔ یہ انٹرویوز نوّے کی دہائی میں لیے گئے تھے اور اسی وقت کتابی صورت میں شائع بھی ہوئے تھے، لیکن عرصے سے یہ کتاب نایاب تھی اور علم وادب کے شائقین مسلسل اس کے نئے ایڈیشن کا مطالبہ کررہے تھے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر کتاب کا اضافہ شدہ ایڈیشن بڑے اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔یوں بھی اردو میں انٹرویوز کی کتابیں شاذ ونادر ہی شائع ہوتی ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔پہلا حصہ برصغیر کے ایک درجن سے زیادہ نامور ادبیوں‘شاعروں اور فن کاروں کے انٹرویو ز پر مشتمل ہے۔ان میں اخترالایمان،کیف بھوپالی،حبیب جالب،علی سردار جعفری،جوگندرپال،احمد فراز، بیکل اتساہی،افتخار عارف،مظفر وارثی،بشیر بدر،ملک زادہ منطور احمد،عطاالحق قاسمی،اورصلاح الدین پرویز جیسے نامی گرامی ادیب وشاعر شامل ہیں۔ ان انٹرویوز میں معصوم مرادآبادی نے ایسے سوالات کئے ہیں جو عام قارئین کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ان انٹرویوز کے ذریعہ ایسی معلومات حاصل ہوں اور ایسے پہلوؤں پر روشنی پڑے جو ابھی تک سامنے نہیں آئے تھے۔اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ان سوالات سے اس بات کا انداز ہوتا ہے کہ وہ ادب کی سمت و رفتار پر گہری نظر رکھتے ہیں۔پاکستانی ادیبوں اور شاعروں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے’ہجرت‘ کے موضوع پر چبھتے ہوئے سوال کئے ہیں۔ہجرت بھی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا ’جہاد‘ کی طرح غلط استعمال کیا گیا ہے۔اس موضوع پر جوابات سے قارئین کے سامنے سچائی ابھر کر سامنے آتی ہے۔اس حصہ میں سب سے دلچسپ انٹرویو معروف شاعر بشیر بدر کا ہے جس میں انہوں نے اپنی شاعری کے بارے میں انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے اور ان کے جوابات مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔اس انٹرویو کی گونج سرحد پار بھی سنی گئی اور بر صغیر کے ممتاز ادیب مشفق خواجہ نے اپنے کالم میں جو وہ اپنے قلمی نام’خامہ بگوش‘ کے نام سے لکھا کرتے تھے‘ اپنے تبصرے کا موضوع بنایاجو قارئین کی دلچسپی کے لئے معصوم مرادآبادی نے بشیر بدر کے انٹرویو کے ساتھ شامل کیا ہے۔اس مجموعہ میں معروف شاعر مظفروارثی کا ایک تفصیلی خط بھی شامل ہے، جو انھوں نے مشہور شاعر قتیل شفائی کے انٹرویوپر ردعمل کے طورپر لکھا ہے۔ قتیل شفائی نے مظفروارثی پر کچھ الزامات لگائے تھے، جس کا جواب انھوں نے دیا ہے۔
ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اس کتاب میں نوری نستعلیق کے موجد احمد مرزا جمیل کا انٹرویو بھی شامل ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ صحافت کی وجیہ سے کتابت اور خوش نویسی کا فن زوال پذیر ہوا۔ اردو کی نمایاں ہستیوں کے علاوہ اس کتاب میں ’ٹیپو سلطان‘ ناول کے مصنف بھگوان گڈوانی کا انٹرویو بھی شامل ہے جس میں انہوں نے اپنے ناول اور ٹیپو سلطان کے بارے میں دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔ اسی حصہ میں انٹرویوز کے ساتھ ساتھ فن کاروں کا مختصر تعارف بھی شامل ہیں۔ جس سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں فرقہ واریت کے مسئلہ پر کئی فن کاروں اور دانشوروں کے انٹرویوز شامل ہیں۔ان میں بھیشم ساہنی،حبیب تنویراورجاوید اخترجیسے لوگ شامل ہیں۔یہ انٹرویوز ایودھیا سانحہ کے پس منظر میں لئے گئے تھے لیکن ان کی معنویت آج بھی برقرار ہے۔ یہ انٹرویوز مختصر ہونے کی وجہ سے تشنگی کا احساس دلاتے ہیں۔موجود ہ حالات کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے معصوم مرادآبادی اس ناز ک اور سلگتے ہوئے موضوع پر مزید لوگوں سے تفصیلی انٹرویو ز لے کر علیحدہ کتاب کی شکل میں شائع کریں تاکہ اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔ کتاب کادیباچہ ممتاز دانشور پروفیسر شمیم حنفی نے تحریر کیا ہے جو نہایت دلچسپ ہے اور کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔کتاب کے مشمولات پر اظہارخیال کرنے والے دیگر لوگوں میں ڈاکٹر خاور ہاشمی، ڈاکٹر رضوان احمد، رحمت اللہ فاروقی، حقانی القاسمی، جی ڈی چندن، پروفیسر شراج اجملی اور جعفرعباس جیسے اہل قلم شامل ہیں۔
کتاب بہت خوبصورت چھپی ہے۔گٹ اَپ کے ساتھ ساتھ کمپوزنگ اور طباعت بہترین ہے۔عمدہ طباعت کے لئے پبلشر اویس سنبھلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔کتاب کی رعایتی قیمت تین سو روپے ہے۔امید ہی نہیں بلکہ یقین ہیں کہ یہ کتاب ادبی اور صحافتی حلقوں میں دلچسپی سے پڑھی جائے گی اور ملک کی اہم لائبریروں کی زینت بنے گی۔بلا شبہ یہ ایک مستند ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔کتاب نعمانی کیئر فاؤنڈیشن لکھنؤ نے شائع کی ہے۔حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر9810780563 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔