سبزار احمد بٹ
ماسٹر عبدالسلام بھی آج کی تقریب میں شریک ہونے جارہا تھا ۔ شرکت کے لئے آج اسے بھی دعوت نامہ ملا تھا ۔ جوں ہی عبدالسلام جلسہ گاہ میں داخل ہوئے پروگرام شروع ہو چکا تھا ۔ اسے دیکھ کر پہلی صف میں بیٹھے تمام لوگ احتراماً کھڑے ہوئے اور ہوتے بھی کیوں نہیں ۔ عبدالسلام نے ان میں سے بہتوں کو خون جگر دے کر پڑھایا تھا اور آج یہ لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے ۔ ماسٹر جی کو پہلی صف کے بیچ میں بٹھایا گیا ۔
اس پروگرام کا اہتمام دراصل محکمہ تعلیم نے کیا تھا ۔ پروگرام میں تعلیم کے اعلی عہدے داروں کے ساتھ ساتھ وزیر تعلیم بھی شامل ہونے والے تھے ۔ پروگرام کا خاص مقصد یہی تھا کہ دل و جان سے پڑھانے اور تعلیمی میدان میں اہم کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور بہترین کام کرنے والے استاد کو “بیسٹ ٹیچر ایوارڈ” سے سرفراز کیا جائے۔ تقریب میں موجود اکثر لوگوں کی یہی رائے تھی کہ اس سال کا “بیسٹ ٹیچر ایوارڈ” ماسٹر عبدالسلام کے ہی نام ہوگا ۔ کیونکہ ان کی نظر میں اس انعام کا مستحق اس سے زیادہ کوئی تھا ہی نہیں ۔
عبدالسلام دراصل حاجی نور محمد کا بیٹا تھا جو آج سے تقریباً تیس سال پہلے محکمہ تعلیم میں بطور استاد تعینات ہوا تھا ۔ عبدالسلام روزِ اول ہی سے اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرتے تھے ۔ نو بجے اسکول پہنچنا اور ساڑھے چار پانچ بجے اسکول سے نکلنا اس کی عادت بن چکی تھی۔ کبھی کبھی انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا تھا کہ عبدالسلام استاد ہیں یا خاکروب یا چوکیدار کیونکہ وہ نہ صرف سب سے پہلے اسکول پہنچ کر اسکول کھولتے تھے بلکہ چھٹی کے وقت سب سے آخر میں اسکول سے نکلتے تھے ۔ اسکول کی ایک ایک چیز کا خیال رکھتے تھے ۔ کبھی اگر خاکروب کسی وجہ سے اسکول نہیں آتا تو عبدالسلام خود اسکول کی صفائی کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ بیت الخلا تک صاف کرتے تھے ۔ عبدالسلام بچوں کو نہ صرف دل و جان سے پڑھاتے تھے ۔ بلکہ اکثر اوقات بچوں کو اخلاقی تعلیم سے بھی آراستہ کرتے تھے ۔کوئی بچہ اگر ناصاف اسکول آتا تھا تو عبدالسلام اسے ڈاٹنے کے بجائے اسے نہلاتے تھے۔ بالوں میں کنگی کرتے تھے ۔ ناخن تراشتے تھے۔ اتنا ہی نہیں کسے بچے کا جوتا اگر صاف نہیں ہوتا تو عبدالسلام فوراً اس کے جوتوں کی پالش کیا کرتے تھے ۔ ان کے اس عمل سے ایسا اثر ہوا کہ اکثر بچے صاف ستھرے اسکول آتے تھے اساتذہ برادری عبدلسلام کے اس رویئے سے سخت ناراض تھی ۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ عبدالسلام کے ایسا کرنے سے اساتذہ کی عزت خاک میں مل گئی ہے ۔ لیکن عبدالسلام کا اپنا نظریہ تھا ۔ وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنا کام اپنے طریقے سے کرتے تھے ۔ کوئی بچہ ایک یا دو دن اسکول نہیں آتا تھا تو ماسٹر عبدالسلام اس کے گھر جا کر وجہ معلوم کرتے تھے اور اگر اس کے بس میں ہوتا تو فوراً ازالہ کرتے تھے ۔
اُس دن بھی جب شکور احمد اسکول نہیں آیا تو عبدالسلام اس کے گھر گئے اور اس کے باپ سے پوچھا؟
علی محمد آپ کا بیٹا کئی دنوں سے اسکول نہیں آیا خیریت ہے؟
کیا کہوں ماسٹر جی!!!!!!! میں نے ہی اسکول جانے نہیں دیا…
لیکن کیوں؟
یہی تو اس کے پڑھنے لکھنے کی عمر ہے..
ہاں وہ تو ہے!!!! لیکن آپ کو تو پتہ ہے ۔ میری بیوی اکثر بیمار رہتی ہے ۔ میں جو کچھ کماتا ہوں وہ اس کی ادویات پر خرچ ہوتا ہے ۔ گھر کے باقی اخراجات تو…………..
اور اوپر سے بیٹی بھی جوان ہو گئی ہے اس کی شادی بھی کرنی ہے ۔ اسی لئے شکور کو مزدوری کے لیے بھیج دیا ۔ میں بھی چاہتا تھا کہ میرا بیٹا پڑھے لکھے لیکن ہم غریبوں کی قسمت میں کہاں ہوتا ہے پڑھنا لکھنا ۔…. پریشانیاں اور مصائب تو غریب کے گھر کا پتہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں ۔ یہ کہنا تھا کہ عبدالسلام کی آنکھیں نم ہوئی ۔ بستر پر لیٹی ہاجرہ بھی رونے لگی اور چولہے پر کھانا پکانے والی بیٹی کی بھی روتے روتے ہچکی بند گئ ۔ ماسٹر عبدالسلام کی آنکھیں نم ہوئیں اور وہ وہاں سے نکل گیا ۔ اگلے دن کچھ رقم لے کر پھر سے علی محمد کے گھر آیا ۔
یہ لو کچھ پیسے میں نے جی پی فنڈ نکالا تھا مکان تعمیر کرنے کے لئے۔
لیکن ماسٹر جی…..
لیکن ویکن کچھ نہیں مکان تو بعد میں بھی تعمیر کیا جاسکتا ہے لیکن شکور کا مستقبل پھر نہیں بن سکتا ۔ کل سے اسے اسکول بھیج دینا…
ماسٹر جی ہم آپ کا یہ احسان کیسے چکائیں گے؟؟؟ ہاجرہ نے روتے ہوئے کہا۔
کل سے شاکر کو اسکول بھیج دینا بس اور کچھ نہیں کرنا ہے ۔آپ کا بیٹا بہت ہونہار ہے ۔
اگلے دن سے شکور اسکول آیا اور من لگا کر پڑھنے لگا ۔ اپنی محنت اور لگن سے وہ آگے بڑھتا گیا اور بالآخر محکمہ معلومات عامہ میں ایک اچھے عہدے پر فائز ہوا ۔ اس طرح سے گھر کے مسائل کا کسی حد تک سد باب ہوا ۔
ایک شکور کی بات نہیں ہے ۔ ایسے درجنوں لڑکے لڑکیاں ہیں جنہیں ماسٹر عبدالسلام نے مدد کی اور ان کے مستقبل کو رائیگاں ہونے سے بچایا ۔ عبدالسلام نے کبھی اپنے کام کی تشہیر نہیں کی ۔ انہیں تشہیر سے سخت نفرت تھی ۔ نہ صلے کی پرواہ تھی نہ ستائش کی تمنا ۔ صوم الصلوۃ کے پابند تھے اور اپنے طلبا پر جان چھڑکتے تھے ۔ عمر کی اس دہلیز پر کھڑے تھے کہ اب بال سفید ہوگئے تھے ۔زندگی کا یہ سفر کیسے طے ہوا کچھ پتہ ہی نہیں چلا ۔ جہاں سے گزرتے تھے ان کے طالب علم ان کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے ۔ کبھی کسی آفس میں جاتے تھے تو کوئی نہ کوئی آفیسر نکل ہی آتا تھا جسے عبدالسلام نے پڑھایا ہو، جب کوئی آفیسر اپنی کرسی سے کھڑا ہوتا تھا اور انہیں یہ کہہ کر اپنی کرسی پیش کرتا تھا کہ بیٹھئے جناب آپ نے مجھے فلاں اسکول میں پڑھایا ہے تو عبدالسلام کو لگتا تھا کہ جیسے اس کے گلے میں سونے کا تمغہ ڈالا گیا ہو۔
اب فقط ڈیڑھ مہینہ رہ گیا تھا سبکدوشی کو ۔ لیکن آج بھی اسی لگن، جوش، ولولے اور ہمت سے بچوں کو پڑھاتے تھے ۔
پروگرام آگے بڑھتا گیا۔ مقررین نے اساتذہ کرام کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے ملائے ۔ آدھے سے زیادہ مقررین نے اپنی تقاریر میں ماسٹر عبدالسلام کا نام لیا اور باقی اساتذہ کرام سے ان کے نقش قدم پر چلنے کی گزارش کی ۔ جس سے یہ خیال اور بھی پختہ ہوتا گیا کہ اس سال کا “بیسٹ ٹیچر ایوارڈ” ماسٹر عبدالسلام کو ہی ملنے والا ہے ۔ ویسے بھی ان تیس سالوں میں عبدالسلام کو کبھی بھی کسی انعام سے نہیں نوازہ گیا تھا ۔ اتنے میں وزیر تعلیم بھی تشریف فرما ہوئے اور تقریب کے ناظم نے مائیک پر سے اعلان کیا کہ اب اپنے دل تھام کے رکھئے اب ہم ” بیسٹ ٹیچر ایوارڈ” کے لئے منتخب کئے گئے استاد کا نام لینے والے ہیں ۔ یہ کہنا تھا کہ سب لوگ ماسٹر عبدالسلام کی طرف دیکھنے لگے ۔ تالیوں کی گونج سے پورا ہال گونج اٹھا حالانکہ ابھی تک نام کا اعلان نہیں ہوا تھا ۔ اتنے میں مائیک پر سے اعلان ہوا کہ اس سال کے لئے قابل ہونہار، اور ذہین استاد جناب ملک تنویر کو “بیسٹ ٹیچر ایوارڈ” کے لئے نامزد کیا جاتا ہے ۔ تالیوں کی گونج دھیرے دھیرے مدھم ہوتی گئی اور چمہ گوئیاں ہونے لگی ۔
ملک تنویر کو؟؟؟؟؟
آخر یہ ہے کون؟
اسے تو ہم نے کبھی کسی اسکول میں نہیں دیکھا۔۔۔!
کیا یہ بھی اساتذہ برادری میں شامل ہے؟
کسی شخص نے پوچھا؟؟؟
جیوری کی طرف سے نامزد کیا گیا ہے،
پاس میں بیٹھے ایک شخص نے دھیمی آواز میں جواب دیا ۔
انعام کے لئے محنتی اور قابل ہونے کی نہیں بلکہ بڑے لوگوں سے جان پہچان ہونے، چمچہ گیری اور چاپلوسی کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو ملک تنویر کو خوب آتی ہے کیونکہ ملک تنویر پچھلے پندرہ سالوں سے محکمہ تعلیم کے بڑے آفیسروں کے ساتھ منسلک رہا ہے ۔ جب سے محکمہ میں آیا ہے اس نے تو کبھی اسکول دیکھا ہی نہیں ، بچوں کو پڑھانا تو دور کی بات ہے ۔ یہاں تو پزیرائی بھی ان کی ہی ہوتی ہے جن کا بڑے لوگوں سے اثررسوخ ہو یا جو چاپلوسی اور جی حضوری کرنے میں ماہر ہوں ۔محنتی لوگوں کی قدر کون کرتا ہے یہاں ۔ ہیروں کہ پہچان تو جوہری کر سکتا ہے کباڑی نہیں…..
عبدالسلام نے کچھ نہیں کہا بس اس کے ہونٹوں پر ایک من موہنی سے مسکراہٹ پھیل گئی اور یہ شعر ہونٹوں پر آتے آتے رہ گیا ۔
میں پتھروں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
���
اویل نورآباد ، کولگام
موبائل نمبر؛7006738436