سال ۲۰۱۷ کے ۶ دسمبر کو امریکی صدر ڈونائلڈ ٹرمپ نے تقریباّ سات دہائیوں سے چلی آرہی امریکی خارجہ پالیسی کو بالائے طاق رکھ کراور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہ کرتے ہوئے نہ صرف یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرلیا بلکہ امریکی سفارت خانے کو ا یک مقررہ مدت کے اندر مقدس شہر القدس منتقل کرنے کے احکامات بھی دئے ۔ اس اعلان نے مشرقی وسطیٰ میں ایک سنگین بحران کو جنم دیا ۔ امریکی صدر کے اس اقدام کی عاملی سطح پرشدید مخالفت ہوئی ۔امریکا کے سبھی یورپی اتحادیوں بشمول فرانس،جرمنی نے اس کے خلاف اپنی زباں کھولی جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بجز امریکا سبھی 14؍ارکان نے اس اعلان پر اپنا اعتراض جتایا ۔ اسرائیل نے اس کا استقبال کیا کیونکہ اس سے مشرقی یروشلم میں اسرائیل کے ناجائز قبضہ جائز ٹھہرتا ہے یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفیر میڈریکا موگیرنی نے واضح الفاظ میں کہا کہ امریکی صدر کا یہ فیصلہ مشرقی وسطیٰ کے لئے ایک خطرہ ہے ۔وہ مانتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے ہی یروشلم کو دونوں ریاستوں کے لئے دارلحکومت کی حیثیت دینے سے ہی یہ معاملہ پُر امن طریقے سے حل ہوسکتا ہے۔ سابقہ اوباما انتظامیہ میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی میں ڈائریکٹر جان او برنن نے بر حق کہا کہ یہ جلد بازی میں لیا جانے والا فیصلہ ہے جس سے آنے والے برسوں میں مشرقی وسطیٰ میں امریکی مفادات کو زک پہنچے گی۔ اگرچہ تمام امریکی صدارتی انتخابات کے دوران امریکی سفارتخانے کو اسرائیل کے دارلحکومت یروشلم منتقل کرنا سب کا انتخابی نعرہ رہا تاہم کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا ۔ ڈونائلڈ ٹرمپ وہ پہلا صدر امر یکہ بنا جس نے اپنے وعدے کا ایفاء کردیا۔ اگرچہ دنیا بھر سے اس پر تنقید ہورہی ہے مگر یہ تنقید عارضی ہوگی کیونکہ امریکہ ایک طاقت ور ملک ہے اور اپنی بات جوں توں منوانے کے داؤ پیچ جانتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے قبلہ ٔ اول القدس دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک اہم شہر ہے۔۔۔ دنیا کا واحد شہر جو تین الہامی مذاہب ماننے والے مسلمانوں ،عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طورمقدس ہے۔ تینوں کی کوشش ہے کہ یہ شہر ان کے کنٹرول میں رہے جس کے لئے کئی جنگیں بھی ہوئیں ۔ اس شہر پر کئی بار قبضہ ہوا ، یہ کئی بار اجڑا، کئی بار آباد ہوا۔اسرائیل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ یروشلم3؍ہزار سال سے یہودیوں کا دارلحکومت رہا ہے ۔ 1966سے اسرائیل اس شہر کے مشرقی حصہ پر قابض ہے اور مغربی حصے میں غیرقانونی طور آبادکاری کر رہا ہے ۔ دنیا اسے تسلیم نہیں کرتی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے والے کسی بھی ملک کا سفارتخانہ یروشلم میں واقع نہیں ہے ۔اب امریکا وہاں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ برطانیہ جو آج ڈونائلڈ ٹرمپ کے مذکورہ اعلان کے خلاف ہے، نے ہی اسرائیل کی بنیاد رکھی ۔ بالفورڈ اعلامیہ اس کا نکتہ آغاز ہے جس نے مشرق وسطیٰ کی سیاسی وجغرافیائی حیثیت کو تہس نہس کردیا ۔ برطانیہ نے 1922سے 1935تک مغربی ممالک سے یہودیوں کی ہجرت کو یقینی بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف 13برسوں میں یہودیوں کی فلسطین میں آبادی10فیصد سے بڑھ کر27فیصدتک پہنچ گئی۔وقت کے ساتھ ساتھ فلسطینی علاقے میں یہودیوں کی آبادکاری تیز ہوتی گئی ۔ امر یکہ نے یہودی ریاست کی تعمیر میں اپنے شانے پیش کئے اور سوویت روس نے اسرائیل کو اپنے قیام کے چند گھنٹوں بعد تسلیم کیا۔ اس طرح یہناسور دنیا کی بڑی طاقتوں کا پیدا کردہ ہے ۔8نومبر1995 کو امریکی مقننہ نے یروشلم ایمبیسی ایکٹ منظور کیا جس کے مطابق امریکی سفارتخانے کو اسرائیل کے دارلحکومت یروشلم منتقل ہونا ہوگا ۔ اس ایکٹ میں درج ایک شق کے مطابق امریکی صدر کو یہ حق دیا گیا کہ وہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر فیصلے کو 6ماہ کے لئے موخر کریں ۔ اسی شق کو استعمال کر تے ہوئے بل کلنٹن سے لے کر ڈونائلڈ ٹرمپ تک تمام امریکی صدور اس عزم کا اظہار کرتے رہے کہ امریکا اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرکے رہے گا ۔ گذشتہ ایک ماہ سے مشرقی وسطیٰ کے حکمران امریکی صدر کے ظالمانہ اقدام کے خلاف صرف اخباری بیانات جاری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے لیکن عملی طور وہ کچھ کرنے سے کترا رہے ہیں۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کے امر یکی اعلان کے ساتھ ہی فلسطین اور دنیا کے دیگر مسلم ممالک بشمول کشمیر احتجاجی مظاہرے ہوئے، مظاہرین نے امر یکہ اور اسرائیل کے خلاف دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے امریکہ اور اسرائیل کے جھنڈوں کو نذر آتش کیا جب کہ فلسطین کے جھنڈے اور بینر جابجا لہرائے گئے ۔ اتنا ہی نہیں غزہ کو کنٹرول کرنے والے حماس کے قائد اعلیٰ اسمعٰیل ہانیہ نے آنے والے ایام میں نئے انتفاضے کا اعلان کر کے احتجاجی مظاہروں میں مزید سرعت لانے کی دھمکی دی ۔
امریکا کی جانب سے انفرادی طور پر یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرنے سے ٹرمپ نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے سبھی ممکنہ مزاکرات کو بری طرح کمزور کر کے اپنی دوغلی پالیسی یا صحیح لفظوں میں منافقت کا بھر پور اظہارکیا ۔ امر یکہ خاص کر مسلم دنیا کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے جنگ وجدل میں مصروف ہے ۔ مبصرین مانتے ہیں کہ ٹرمپ نے امریکی مفادات کے حوالے سے ایران کو پورے خطہ میں اپنے اہم دشمن کے طور پر نشانہ بنایا ہے جب کہ نئے اقدام سے ایران اور اس کے اتحادیوں جیسے حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی اپنائی جانے والے پالیسی مزیدسخت ہوجائے گی۔ ترکی اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی جانب سے ٹرمپ کے خلاف شدید الفاظ میں مذمت اس بات کااشارہ ہے کہ وہ روس کے ساتھ تعاون میں مزید تیزی لائے گا جو شام کے حوالے سے اس وقت دیکھا جارہا ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عرب ممالک اپنی داخلی مصیبتوں اور چپقلشوںمیں الجھے ہوئے ہیں اس لئے وہ ٹرمپ کو چلینج کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہیں۔وہ دن کب کے گذر گئے جب عرب رہنما امریکہ کو ایک بامعنی طریقہ کار سے یروشلم کی حیثیت پر من مانیاں کرنے سے روکتے تھے۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ مسلمان حکمران امریکی صدر کے مکروہ عزائم کے خلاف عملی طور کچھ بھی نہیں کرسکیں گے ،ا س لئے اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ نام نہاد مسلم لیڈروں نے اسلاف کی دی ہوئی ہر وراثت کا وجود ہی خطرے میں ڈال کے رکھ دیا۔ علامہ اقبال کا نظریہ تھا کہ فلسطین کے موضوع کو محض عربوں کا مسئلہ نہ جاننا چاہیے بلکہ یہ تمام عالم اسلام کا مسئلہ ہے ۔ بہر صورت یروشلم کے معاملہ پربھارت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے ۔مودی حکومت نے براہ راست اس مسئلے پر کسی تبصرے سے اجتناب کیا لیکن وزیراعظم مودی اور ان کے سنگھ پریوار کی باچھیں مبینہ طور کھل رہی ہیں کہ امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت کی شناخت دئے جانے پر گامزن ہے۔ دراصل بی جے پی اور آر ایس ایس کے فرقہ ورانہ ہندوتا عالمی نظریہ ٹرمپ کے زیر بحث مسلم کش اقدام ہم آہنگی رکھتاہے اور اس کے اثرات ومضمرات مسئلہ کشمیر پر بھی مرتب ہوں گے۔ الغرض ہمارے اسلاف نے جس ایمانی قوت، محنت اور خلوص نیت سے اسلامی مملکت کے جھنڈے پوری دنیا میں گاڑ دئے تھے ہم نے اس جھنڈے کا نہ قولاً اور نہ فعلاً کو اپنا یا۔ نتیجہ یہ کہ ہم گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ اقبال عربوں کو ان الفاظ میں نصیحت کرتے ہیں کہ ’’عرب اقوام اپنے قومی مسائل میں غور و فکر کریں، وہ اپنے شاہوں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ موجودہ حالات میں ان کے حکمران ضروری صلاحیت اور قابلیت سے محروم ہیں۔عرب اقوام کو چاہیے کہ فلسطین سے متعلق اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں۔‘‘ کیاآج پورے عالم ا سلام میں یہ نصیحت کوئی سننے والا ہے یا ہم صرف اگلی کئی صدیوں تک خواب وخیال کی دنیا میں رہ کر کسی صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کے انتظار میں اپنی بچی کھچی حیثیت ، انفرادیت اور وراثت کھو دیں گے ؟ ہمارا یہ انتظار کیا ’’گریٹر اسرائیل ‘‘ تک طول کھینچے گا؟ کیا ہما ری غریت وحمیت کی ہانڈی میں اُبال لانے کے لئے ٹرمپ جیسے ہٹلروں کی مار ابھی باقی ؟
نوٹ:مضمون نگار’’ کشمیر عظمیٰ ‘‘سے وابستہ ہیں۔
رابطہ :9797205576،[email protected]