سبزار احمد بٹ،اویل ،نورآباد، کولگام
صبح کے تقریباً ساڑھے دس بج چکے تھے۔ بہت سارے کالے کوٹ والے اپنی اپنی فائلیں ہاتھ میں لئے عدالت کے اندر جا رہے تھے۔اریبہ بھی عدالت کی سیڑھیوں کے نیچے اس انتظار میں تھی کہ کوئی آئے اور اسے سیڑھیاں چڑھنے میں مدد کرے کیونکہ اب اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود سیڑھیاں چڑھتی اور کمرہء عدالت تک پہنچ پاتی۔ سفیر میں بھی اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی بیوی اریبہ کو عدالت تک لے جاتا،جہاں آج ان دونوں کے بیٹے شرافت کے کیس کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ خیر اتنے میں کوئی نوجوان اریبہ کو ویل چیر پر بیٹھے دیکھ کر اس کے پاس آیا۔
ماں جی کس کا انتظار کر رہی ہو ؟
بس بیٹا مجھے عدالت تک پہنچنا ہے ۔ اگر آپ میری مدد کرتے۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ۔
نوجوان نے ویل چیر کو دھکا دینا شروع کیا۔ چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد پوچھنے لگا
ماں جی تم کس سلسلے میں یہاں آئی ہو۔اریبہ نے ایک لمبی سانس لی۔ آنکھوں سے بہنے والا پانی صاف کیااور کہنے لگی۔
بیٹا میرے بیٹے کے کیس کا آج اس عدالت میں فیصلہ ہونے والا ہے۔ میرا بیٹا۔۔۔۔۔۔اس کے بعد آواز اُسکے حلق میں ہی اٹک کر رہ گئی۔ گلا خشک ہوا۔ سانس پھولنے لگی۔
ماں جی آپ رہنے دیجئے ۔یہ لیجئے پانی پی لیجئے۔یہ رہا جج صاحب کا کمرہ ۔اریبہ کمرے کے باہر اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔
دراصل کچھ عرصہ سے اریبہ کو دمے(asthma) کی شکایت تھی۔ بات کرنے سے بھی اسے تکلیف ہوتی تھی۔ آنکھوں سے آنسوں بھی بہنے شروع ہو گئے تھے حالانکہ جب سے ایک ہمسایہ نے چشمہ بنوا کر دیا تھا تب سے اب ٹھیک طرح سے ادھر ادھر جا سکتی تھی۔
اریبہ دراصل گاؤں کے ایک معزز، دیندار اور صاحب ثروت انسان اکمل کی بیٹی تھی جسے اپنے والدین نے نازونعم سے پالا تھا۔گریجویشن کے بعد ہی اس کی شادی نورالدین کے بیٹے سفیر سے کرنے کا منصوبہ بنا۔ جب اریبہ سے رائے پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ جہاں میرے والدین چاہیں گے وہاں میری شادی کر سکتے ہیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بھلا ان سے بہتر میرے لئے کون اچھا سوچ سکتا ہے۔ اریبہ کی شادی بڑے دھوم دھام سے ہوئی۔ شادی کے بہت سال گزرنے کے بعد بھی اریبہ کی گود سونی تھی۔ اولاد کے نہ ہونے کی وجہ سے دونوں میاں بیوی اُداس اُداس رہتے تھے۔ کسی کام میں من نہیں لگتا تھا۔ حالانکہ کسی چیز کی کمی نہیں تھی سوائے اولاد کے۔ سفیر دو فیکٹریوں کا کام کاج سنبھالتا تھا۔ شام کو جب تھکا ہوا گھر پہنچتا تھا تو اریبہ بڑی خوش اسلوبی سے اس کا استقبال کرتی تھی۔ خوشی سے دونوں باتیں کرتے تھے لیکن کبھی کبھی اچانک سے دونوں کے چہروں پر اداسی کے بادل چھا جاتے تھے۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے لیکن اداس رہنے کی وجہ نہیں پوچھتے تھے کیونکہ دونوں اداس رہنے کی وجہ اچھی طرح جانتے تھے۔ شاید ہی کوئی ڈاکٹر یا کوئی پیر فقیر ہوگا جس کے پاس اولاد کی خاطر دونوں میاں بیوی نہ گئے ہوں۔ اس پریشانی سے دونوں کے بال سفید ہو گئے اور اب دونوں بوڑھے لگ رہے تھے ۔خیر پندرہ سال بعد اللہ رب العزت نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ دونوں کی زندگیوں میں خوشی کی نئی صبح کا آغاز ہوا۔ دونوں پھولے نہیں سماتے تھے ۔اریبہ دن بھر اپنے لاڑلے کے ساتھ مگن رہتی تھی اور سفیر بھی اس انتظار میں رہتا تھا کہ کب چار بج جائیں اور وہ فیکڑی سے نکل کر اپنے لاڑلے کے پاس پہنچ جائے۔ دن گزرتے گئے اور شرافت اب اپنی زندگی کی بارویں بہار دیکھ چکا تھا۔ یہ بارہ سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔ ماں باپ نے شرافت کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ جو کچھ اس کے منہ سے نکلتا تھا دونوں میاں بیوی اس خواہش کو بلا کسی چون و چرا کے پورا کرنے میں لگ جاتے تھے۔ کبھی یہ نہیں دیکھا کہ یہ مانگ جائز بھی ہے یا نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شرافت بہت ضدی بن گیا۔ بات بات پر ضد کرنا اور جھگڑنا اس کی عادت بن گئی۔ پڑھائی سے جی چراتا تھا اور آوارہ گردی کرنے میں اپنا بیشتر وقت ضائع کرتا تھا۔ اس دن بھی صبح ماں سے یہ کہہ کر نکلا کہ مجھے امتحان دینے جانا ہے۔ ۔اسکول پہنچ کر کسی لڑکے کے ساتھ تُوتُو میں میں ہوئی اور اسکول کی احاطے میں اسے بڑی بے دردی سے پیٹا اور گالی گلوچ سو الگ۔ شام کو سفیر تھکا ہارا گھر آیا ابھی کپڑے بھی نہیں بدلے تھے کہ گاڑی کی ہارن سن کر کھڑکی سے دیکھنے لگا ۔شرافت کے اسکول پرنسپل کی گاڑی دیکھ کر سفیر حیران رہ گیا۔ بیگم سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا اور خود بنا کپڑے بدلے ہی نیچے آیا۔
السلام عليكم ۔۔
جی کہیے ۔۔کیسے آنا ہوا
کوئی ضروری کام تھا تو مجھے بلا لیا ہوتا ۔آپ نے تکلیف کیوں کی۔
نہیں نہیں سفیر صاحب میں آپ کی بڑی قدر کرتا ہوں لیکن ۔۔۔
لیکن کیا۔ صاف صاف بتائیے ہوا کیا ؟
دراصل آپ کے بیٹے کی آوارہ گردیاں آجکل کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں ۔روز اسکول میں کوئی نہ کوئی نیا ہنگامہ کھڑا کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اساتذہ کے ساتھ بھی الجھ پڑتا ہے۔ ہمارا اسکول پورے شہر میں بدنام ہوگیا ہے۔ نئے داخلے ملنا بند ہوگئے ہیں۔
سفیر سر جھکائے سن رہا تھا اور اُسکے ماتھے پر پسینے کی بوندیں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
سفیر صاحب میں آپ کی بڑی عزت کرتا ہوں لیکن انتظامیہ نے آپ کے بیٹے کو اسکول سے نکالنے کا فیصلہ لیا ہے۔ ۔۔۔
مجھے بہت افسوس ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر پرنسپل صاحب نکل گئے
اور دونوں میاں بیوی خاموش اور اداس ہو گئے۔
بیٹے کی شرارتیں اس قدر بڑھ گئے تھیں کہ دونوں میاں بیوی کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہے تھے۔ جس طرف جاتے تھے اپنے بیٹے کی شکایت سننی پڑتی تھی،یہاں تک کہ شراب پینے کی لت کا بھی شکار ہو گیا تھا۔ اب اس بیٹے کا کیا کیا جائے ۔اریبہ اسی سوچ میں تھی کہ سفیر نے اریبہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
کیوں نہ شرافت کو شیشے والی فیکٹری کا کام دیا جائے ،ہو سکتا ہے کام کی مصروفیت ہو اور ذمہ داری کے بوجھ سے طبیعت میں کچھ تبدیلی آئے۔
ہاں! اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس سے سدھر جائے گا۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔اریبہ نے دھیمی آواز میں آنسوؤں پونچھتے ہوئے جواب دیا۔
اگلے دن سے سفیر نے شرافت کو اپنے ساتھ لیا اور پورے ایک سال تک کام سمجھاتا رہا۔ بار بار اس بات کی تلقین کرتا تھا کہ مزدوروں سے ٹھیک طرح سے پیش آنا ۔ بیٹا یہ ہیں تو ہم ہیں ۔
ایک سال کے بعد پوری فیکٹری بیٹے کے حوالے کی لیکن بات بات پر غصہ کرنے سے لوگ بھلا کہاں کامیاب ہوتے ہیں ۔ کچھ مہینوں تک شرافت بظاہر بڑی شرافت سے شیشے کی فیکٹری کا کام چلاتا رہا ۔ ایک دن دونوں میاں بیوی صحن میں بیٹھے تھے کی فیکٹری کے تین مزدور ہانپتے ہوئے اندر آئے۔ سفیر ایک دم کھڑا ہوا۔ہاں سوریش کیا بات ہے ؟ تم اتنے پریشان کیوں ہو۔ مالک ۔۔۔مالک غضب ہوگیا ۔
لیکن ہوا کیا کچھ تو بتاؤ۔۔۔مالک چھوٹے مالک نے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کیا شرافت نے۔ میرا دل بیٹھا جارہا ہے ۔بتاؤ جلدی۔
مالک چھوٹے مالک نے فیکٹری میں ایک مزدور کا خون کیا۔
او مائی گاڈ ۔کس کا اور کیوں ؟
چھوٹے مالک جونہی فیکٹری میں آئے اسی وقت ایک بوڑھے مزدور کے ہاتھ سے شیشہ گر کر ٹوٹ گیا۔ چھوٹے مالک نے اس بوڑھے مزدور کو بہت مارا۔ ایک اور مزدور نے چھوٹے مالک کا ہاتھ پکڑا۔ تو چھوٹے مالک نے ٹوٹا ہوا شیشہ اٹھایا اور اس کے سینے میں پیوست کر دیا۔ مالک پولیس نے فیکٹری پر تالا چڑھا دیا اور چھوٹے مالک کو حراست میں لیا ہے۔
ہائے۔۔۔۔۔ جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ ایسی اولاد سے بے اولاد ہونا ہی بہتر تھا اس کے بعد دونوں میاں بیوی اپنی قسمت پر رونے لگے اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر کوسنے لگے یہ کہ یہ سب انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ نہ وہ بیٹے کی بے جا خواہشیں پوری کرتے اور نہ یہ دن دیکھنا پڑتا۔
سال گزر گئے ۔ ساری دولت ختم ہوگئی ۔ بیٹے کو چھڑانے کے لئے وکیلوں کےپیچھے عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے۔ ساری دولت، نام شہرت، عزت، جوانی سب خاک میں مل گیا۔ اب پانی کا گلاس دینے والا بھی کوئی نہیں بچا ۔ دونوں میاں بیوی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے اور آنکھوں کی نظر بھی کمزور ہو گئی ۔ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔
آج اس کیس کا ہائی کورٹ میں فیصلہ ہونے والا تھا۔ بڑی مشکل سے دونوں میاں بیوی عدالت پہنچے تھے۔ اور اب عدالت کے دروازے پر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔باری آتے ہی دونوں نے جج صاحب کے پاؤں پکڑنے کی کوشش کی لیکن ساتھ میں موجود اہلکاروں نے ایسا کرنے نہیں دیا۔ خیر ڈیڑھ گھنٹہ بحث چلنے اور دونوں طرف کے بیانات سننے کے بعد جج صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ۔
تمام گواہوں کے بیانات سننے کے بعد اور فیکٹری کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ شرافت ایک بد اخلاق انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پیشہ ور مجرم اور قاتل ہے۔ اس لئے تعزیرات ہند کی دفع 302 کے تحت شرافت کو سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
یہ سننا تھا کہ اریبہ اپنی ویل چیر سے گر گئی اور اس کی سانسیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رُک گئیں اور سفیر پتھرکی مانند خاموش ہوگیا جیسے کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو۔