دین دیال کا یہ خیال تھا کہ خوشامد اور چالبازی سے بڑے بڑے کام کروائے جاسکتے ہیں۔وہ محکمئہ آب رسانی میں درمیانہ درجے کے ملازم تھے۔تقریباًسات سال سے وہ گھر سے کافی دور ایک ایسے مقام پہ نوکری کررہے تھے کہ جہاں انھیں دو نمبر کا پیسہ نہیں ملتا تھا۔اس لیے وہ چاہتے تھے کہ شہر میں انھیں ایسی جگہ تعینات کیا جائے جہاں انھیں تنخواہ کے علاوہ کچھ اور بھی حاصل ہو۔ چناں چہ انھوں نے اپنے اعلیٰ آفیسر کے نام ایک عرضداشت لکھی اور اپنے آفیسر کے بھائی خورشید اکبر کو ان کے گھر پر دینے کے لیے تیار ہوگئے۔اچانک انھیں یہ خیال آیا کہ وہ اپنا کام کروانے کے لیے کون سا حربہ استعمال کریں کہ خورشید اکبر کے دل میں ان کی محبت اور اپنائیت کا شعلہ بھڑک اٹھے۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد جب انھیں کوئی مناسب تجویز نہیں سوجھی تو انھوں نے اپنی دھرم پتنی؛ شانتی دیوی کو آواز دی
’’ شانتی—شانتی‘‘
’’جی ہاں، کیا کہہ رہے آپ‘‘ وہ دوسرے کمرے میں بیٹھی اپنے چھوٹے بچے کا سوئٹیر بنتی ہوئی بولی۔
دین دیال نے کہا
’’ ادھر آؤ؛میری بات سنو‘‘
جب شانتی دیوی، دین دیال کے کمرے میں آئی تو انھوں نے اس سے کہا
’’ شانتی— میں اپنے تبادلے کے سلسلے میں اپنے آفیسر کے بھائی خورشید اکبر کے پاس جارہا ہوں۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ان کے لیے کیا چیز لے جاوں؟کیوں کہ وہ تو سخت اصول کے آدمی ہیں۔کھانے پینے والے آدمی نہیں ہیں۔تم کوئی ایسا سُجھاو دو کہ جس سے میں ان کے دل کو جیتنے میں کامیاب ہوجاوں‘‘
شانتی دیوی لمحہ بھر کے لیے سوچ میں پڑ گئی۔پھر بولی
’’ میری سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آپ کو اس بارے میں کیا سُجھاو دوں‘‘
دین دیال نے جھنجھلاتے ہوئے کہا
’’اری کچھ تو بتائو۔ میں تشویش میں پڑگیا ہوں۔آخر کیا کیا جائے؟‘‘
دفعتاً شانتی دیوی کے چہر ے پہ نکھار سا آگیا۔وہ مسکراتی ہوئی بولی
’’ میرے دماغ میں ایک اچھا اور کارآمدسُجھاو آگیا ہے‘‘
دین دیال نے بڑی بیتابی سے پوچھا
’’ شانتی! بتاو وہ کیا سُجھاو ہے جو تمہارے دماغ میں آیا ہے‘‘
شانتی کہنے لگی
’’ میرے دماغ میں یہ سُجھاو آیا ہے کہ آپ جب خورشید اکبر کے گھر پر پہنچیں تو ان کو اور ان کی بیوی کو ہاتھ جوڑ کے جُھک جُھک کے نمسکار کریں گے۔پھر ان کو یہ کہیں گے کہ میں آپ دونوںکو اپنے سگے بھائی‘ بہن سمجھتا ہوں۔پھر آہستہ سے اپنی عرضی ان کے سامنے رکھئے۔ میں یقین سے کہتی ہوں ان کا دل پسیج جائے گا اور وہ آپ کی مدد کریں گے"
دین دیال نے جب اپنی بیوی کا سُجھاو سنا تو وہ بڑے خوش ہوگئے اور کہنے لگے
’’ شانتی– مجھے تمہارا یہ سُجھاو بہت اچھا لگا۔میں ایسا ہی کروں گا‘‘
وہ خوشی خوشی اپنے گھر سے خورشید اکبر کے گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے چلتے وہ دل ہی دل میں اپنی بیوی کی ذہانت کو داد دے رہے تھے۔اپنے آپ میں گُم وہ یہ سوچ رہے تھے کہ یہ رشتے بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں،گیلی لکڑیوں کی مانند ، جلائو تو دھواں اٹھتا ہے اور نہ جلائو تو کھانا نہیں پکتا۔کبھی انسان کو ہنساتے ہیں، کبھی رلاتے ہیں،کبھی انسان کو روٹھنے پہ مجبور کرتے ہیں اور کبھی یہ رشتے دشمنی میں بدل جاتے ہیں۔لیکن بھائی بہن کا رشتہ کتنا پیارا اور مقدس ہوتا ہے۔درد واحساس اور اپنائیت سے بھرپور۔کسی غیر محرم خاتون کو بہن کہہ دینے سے دل میں فوراً مقدس رشتے کا احساس جاگتا ہے اور دل کی تاریکیاں منور ہوجاتی ہیں۔طرح طرح کے رشتوں نے ان کے ذہن کو گھیر لیا تھاکہ اتنے میں دین دیال خورشید اکبر کے گھر پہنچ گئے۔ شام ہونے میں ابھی تین گھنٹے باقی تھے۔ خورشید اکبر اپنی بیگم گلنار کے ساتھ مکان کے باہر پھلواری میں بیٹھے آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔دین دیال ڈرے سہمے سے مکان کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے۔خورشید اکبر سے ان کی جان پہچان پہلے سے تھی لیکن آج اپنا مسئلہ حل کروانے آئے تھے۔انھوں نے ہاتھ جوڑتے ہوئے پہلے خورشید اکبر کو نمسکار کیا اور پھر ان کی بیوی کو۔خورشید اکبر نے انھیں کمرے میں بٹھایا۔خیر خیریت معلوم کی اور پھر کچھ توقف کے بعد پوچھنے لگے
’’کہیے کیسے آنا ہوا؟‘‘
دین دیال بولے
’’ کئی دن سے میرا دل چاہ رہا تھا کہ آپ جیسے اچھے بھائی بہن سے ملاقات کرآوں۔ بس آج یہ دن آیا۔ بھائی صاحب آپ خوش ہیں نا؟‘‘
خورشید اکبر نے جواب دیا
’’ جی میں اچھا ہوں‘‘
دین دیال نے گلنار کی طرف دیکھا اور اس سے بھی پوچھنے لگے
’’ آپ سنایئے بہن، آپ کیسی ہیں؟‘‘
’’ جی میں ٹھیک ہوں‘‘ گلنار نے کہا۔اسی اثنا میں نوکر چائے لے کرآگیا۔چائے پینے کے بعد خورشید اکبر نے دین دیال سے ایک بار پھر پوچھا
’’کہیے ہمارے لائق کوئی خدمت؟‘‘
دین دیال نے آہستہ سے اپنی جیب سے عرضداشت نکالی اور خورشید اکبر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگے
’’میں سات سال سے گھر سے کافی دور نوکری کرررہا ہوں۔اب شہرمیں آنا چاہتا ہوں۔اس لیے آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ اپنے بھائی سے میرا شہر میں تبادلہ کروایئے۔ بڑی مہربانی ہوگی۔ میں آپ دونوں کو اپنے سگے بھائی بہن کی طرح سمجھتا ہوں‘‘
خورشید اکبر کے ہونٹوں پہ دین دیال کی باتیں سن کر ہلکی سی مسکان رقص کرنے لگی۔انھوں نے اپنی مسکان پہ قابو پاتے ہوئے عرضداشت پڑھی اور کہنے لگے
’’ میں کوشش کروں گا‘‘لیکن گلنار کا چہرہ شرم وحیا سے لال ہورہا تھا۔اس سے رہا نہیں گیا۔وہ دین دیال سے مخاطب ہوکر کہنے لگی
’’ آپ اگر مجھے بہن کہتے ہیں تو ان کو جیجا جی کہیے اور اگر ان کو بھائی کہتے ہیں تو پھر مجھے بھابھی کہیے ۔ آپ کی خدمت میںیہ بھی عرض کرتی چلوں کہ ہم میاں بیوی ہیں، بھائی بہن نہیں‘‘
���
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائیل09419336120