کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
شاعر مشرق و حکیم الامت اور فخر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے نام سے کون شخص واقف و آشنا نہیں ہوگا۔ آپ کا نام اتنا مشہور و معروف ہے کہ چھوٹے بچے بھی نام اقبال سماعت کر کے ہی اپنے اذہان کو اقبالؒ کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ آپ کی شخصیت اتنی عظیم و ارفع ہے کہ خود بقول اقبال ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
چونکہ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ علامہ اقبال ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے اور آپ کی زندگی کا ڈھانچہ جن اشخاص کے زیر سایہ تشکیل پذیر ہوا ہے، وہ سب کے سب محب دین اور متقی و پرہیز گار تھے۔ آپ کے والدین(شیخ نور محمد اور امام بی بی) اور اولین استاد مولوی میر حسن آپکی متقی و دین پسند زندگی میں بہت اہم ہیں۔ جب ہم سیرت اقبال کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے سامنے عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ کی زندگی کا محور و مرکز "قرآن اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم" ہیں اور ان مذکورہ دو اشیاء سے آپ کا تن و من منور نظر آرہا ہے۔ آپ کے نزدیک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تمام علوم کا محور و مرکز ہے اور کائنات کے تمام شعبہ جات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے گرد گھومتے ہیں۔ بقول آپ کے ؎
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
علامہ اقبال عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنا غرق ہو چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک سنتے ہی ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں تھے اور آپ کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ رب العزت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہی سب کچھ ہے۔ بقول علامہ:
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی یٰسین وہی طہ
اقبال صاحب اس عقیدت و محبت کو ایک اور جگہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی ٔسینا
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم علامہ اقبال کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا اور انکے ذہنی فکر پر چھا گیا تھا۔ بڑے فلسفی ہونے کے باوجود بھی آپ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور جانچے۔ اس معاملے میں آپ ایمان بالغیب کے قائل تھے اور بس جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دین و ایمان اور سر آنکھوں پر۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے والہانہ محبت اور بے پناہ عشق کا ہی تقاضہ تھا کہ آپ اکثر اس وجہ سے مضطرب و بے چین رہتے تھے کہ کہیں آپ کی عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک سے برتری حاصل نہ کرے۔ آپ نے مغرب میں سکونت اختیار کرنے کے باوجود بھی اپنے عزیز و محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہیں چھوڑا اور مرد مجاہد کی طرح حالات و واقعات سے مقابلہ کر کے اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے پیوست رکھا۔ اس بات کا دعویٰ خود علامہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
علامہ اقبال اس بات کے بھی قائل تھے کہ دنیا میں ایک انسان کو جو عزت و توقیر حاصل ہوتی ہے، اس کا موجب و سبب بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔بقول آپ کے ؎
اقبال ! کس کے عشق کا یہ فیض عام ہے
رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے
ایک اور جگہ یوں عکاسی کرتے ہیں ؎
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے
علامہ اقبال کے قلب و جان میں اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتنا ادب و احترام اور عشق تھا کہ فراغت کے لمحات میں اپنے آپ کو سدا درود و صلواۃمیں مشغول رکھتے تھے۔ ایک شعر میں اپنے اس قلبی کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں ؎
کافر ہندی ہوں میں، دیکھ میرا ذوق و شوق
لب پہ صلواۃ و درود، دل میں صلواۃو درود
علامہ اقبال اس بات پر یقین پیہم رکھتے تھے اور ہمیشہ اس بات کی تلقین بھی کیا کرتے تھے کہ امت مسلمہ کی پستی و زوال کا بڑا سبب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے فراری و نافرمانی ہے۔ آپ نے مسلمانوں کو ہمیشہ اس امر سے باخبر کیا ہے کہ دنیا میں عروج و بلندی اور تمام مسائل کے رموز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی میں مضمر ہیں۔
مولانا مودودی اقبال اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے ساتھ اقبال کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے مگر یہ شاید کسی کو معلوم نہیں کہ انھوں(اقبال) نے اپنی ساری فلسفہ دانی اور عقلیت کو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ حافظ عمران ایوب لاہوری بھی "جوہر اقبال" کے حوالے سے اپنی کتاب "سنت کی کتاب" میں علامہ اقبال کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احادیث و سنن کے ساتھ ربط و انہماک کو مندرجہ ذیل اقتباس میں اس طرح پیش کرتے ہیں:
"اقبال کے ایمان بالحدیث کی یہ حالت تھی کہ وہ ایسی احادیث سن کر بھی کبھی شک میں نہیں پڑتے تھے جنہیں سنتے ہی جدید دانشور تو کیا پرانے مولوی بھی تاویلات پر اتر آتے ہیں جیسے ایک شخص نے ان(علامہ) کے سامنے حیرانگی سے وہ حدیث بیان کی جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب ثلاثہ(ابوبکر،عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم) کے ہمراہ احد پہاڑ پر تھے کہ پہاڑ لرزنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جا تیرے اوپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صدیق اور دو شہیدوں(رضی اللہ عنھم اجمعین) کے سوا اور کوئی نہیں، اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا۔ اقبال نے سنتے ہی کہا کہ اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں بلکہ میرے نزدیک یہ ایک مادی حقیقت ہے جس میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں اور ایک نبی علیہ السلام کے نیچے مجازا نہیں بلکہ واقعتا پہاڑ لرز اٹھتے ہیں"۔
آخر میں اللہ جل و علی سے دعا ہے کہ ہمارے قلوب کو بھی محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منور فرمائے اور علامہ اقبال کے سیئات کو معاف اور حسنات کو اپنے دربار میں قبولیت بخشے ۔ آمین یا رب العلمین ۔
(مقالہ نگار کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے طالب علم ہیں)