شیخ عابد حسین ،ترہگام
علامہ اقبال کی شاعری کو کون با کمال نہیں سمجھتا اور کون مستفید نہیں ہونا چاہتا ،کیوں کہ علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے جو پیغامات یا جو تصورات پوری دنیا کے سامنے لائے ہیں وہ قابل غور اور قابل تعریف بھی ہے۔ علامہ ایک فلسفی تھے اور اپنے فلسفیانہ تصورات کو انہوں نے شاعری کا جامع پہنا کر پوری دنیا کے سامنے لایا ،ان تصورات میں تصور خودی خاص طور پر قابل ذکر ہے، جس نے علامہ کو لافانی بنا دیا۔ علامہ کو کوچ کئے ہوئے اتنے سال ہوگئے پر آج بھی پوری دنیا ان کے تصورات سے فیضیاب ہو رہی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے عالم ان کے خیالات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ علامہ کے خیالات میں ایک نئی دنیا نظر آتی ہے۔ علامہ نے کئی ساری باکمال نظمیں لکھی ہیں، جن میں نظم ” ایک نوجوان کے نام ” ان کی ایک شاہ کار نظم ہے، جو علامہ کے شعری مجموعہ “بال جبریل ” میں شامل ہے جو 1935 میں علامہ کی وفات سے تین سال پہلے شایع ہوئی ہے۔ علامہ نے اس نظم میں نوجوان سے مخاطب ہوکر نوجوان سے امید اور حوصلے کی فرمائش کی ہے جو کہ پوری نظم میں عیاں ہے۔ اس نظم کے حوالے سے عام تصور ہے کہ یہ نظم علامہ نے کسی خاص نوجوان سے مخاطب ہو کر لکھی ہے ،البتہ نظم سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ نظم دنیا کے تمام نوجوانوں سے مخاطب ہوکرلکھی گئی ہے۔ علامہ نے جس دور میں یہ نظم لکھی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کا نوجوان غفلت کا شکار ہوگیا تھا، جس کے چلتے علامہ پر فکر دامن گیر ہوگئی اور اس نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر یا ان کی صحیح رہبری کے خاطر یہ نظم تحریر کی ہے۔ یاد رہئے کہ ہر قلم کار اپنے دور سے متاثر ہوکر لکھتا ہے، ہر تحریر کے پیچھے ایک دور ہوتا ہے۔ جس دور سے متاثر ہو کر قلم کار نے کوئی تحریر رقم کی ہوئی ہوتی ہے۔ لہٰذا علامہ کے دور میں نوجوان کافی بگڑا ہوا تھا، جسے دیکھ کر علامہ نے ان کی تربیت کے خاطر یہ نظم قلم بند کی ہے۔ اب اس نظم میں جو کچھ علامہ نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر لکھا ہے ،وہ آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ علامہ اقبال نے پوری نظم میں دراصل نوجوان سے شکایت کے ساتھ ساتھ امید کا اظہار کیا ہے، اسی بنا پر علامہ نے نوجوان سے کہا ہے کہ اے نوجوان میں آپ کو محنت ،مشقت اور حوصلے سے دور نہیں دیکھنا چاہتا، ان سب چیزوں کے بغیر آپ کی زندگی کا کوئی حصول نہیں اور نا ہی آپ کی کوئی پہچان ہے ۔مجھے آپ سے ریشمی کپڑے میں ملبوس یا عالی شان قالینوں پر زندگی گزارنے سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ مجھے آپ سے محنت اور مشقت کی امید ہے ۔میں آپ کے اس محنت سے گریزہ ہوجانے سے خون کے آنسو روتا ہوں، اے نوجوان تجھے اگر لوگوں کی طرف سے وقت کا حکمران بنا دیا جائے اور تمہیں تمام تر سہولیتیں فراہم کی جائے تو اسے تمہیں کیا حاصل ہوگا ،کیوں کہ آپ نے اپنی ہمت ، شجاعت اور محنت سے یہ سب حاصل نہیں کیا ہے۔ آپ میں وہ حضرت علی جیسی شجاعت اور دلیری نہیں ہے ،آپ میں حضرت سلیمان جیسی امید نہیں ہے جو مچھلی کی بیٹ میں رہ کر بھی امید کے سہارے صحیح سلامت باہر آیا۔ اے نوجوان تو زندگی کی آسائشوں کو اپنی اس تہذیب میں نہ ڈھونڈ بلکہ خود داری اور محنت سے اپنی تمام تر سہولیتوں کو حاصل کر۔ اے نوجوان جب تو اپنے آپ کو پہچانے گا، اپنی صلاحیتوں کو جانے گا، اور خاص کر اپنے مقام کو جانے گا تو آپ کے اندر عقاب کا روح پیدا ہو گا جو عقاب اپنی دلیری اور خودی کو جان کر آسمان کی بلندیوں کی سیر کر کے اپنا غذا اور اپنا گھر بساتا ہے جو اپنی خودی کو پست نہیں کرتا ،جسے ہمیشہ اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے ۔
عقاب روح جب بیدار ہوتی ہے نوجوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اے نوجوان تو بھی اس عقاب کی طرح خود کے مقام کو سمجھ اور جاننے کی کوشش کر ۔اے انسان تو کبھی نا امید نہ ہوجا، نا امیدی سراسر کفر ہے، سرار بیوقوفی ہے اور نا امیدی کو اپنی امید بنانا نادانی ہے۔ ناامیدی انسان کا ہنر، علم اور شناخت ختم کر دیتی ہے، اسے جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے، امید ہی انسان کو کسی بڑے مقام پر پہچا سکتی ہے۔ امید کے سہارے ایک انسان مرد مومن بن جاتا ہے جو مرد مومن امید کے سہارے ہی اللہ سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اے نوجوان تیرا مقام یا تیرا گھر کسی حکمران کا دربار نہیں ہے تو اشرف المخلوقات ہے، تجھے اللہ نے سب سے اعلیٰ بنایا ہے۔ دنیا کی تمام مخلوقات میں سے افضل بنایا ہے، ان تمام مخلوقات پر آپ کو حق دیا ہے، تجھے شعور سے نوازا ہے۔ لہٰذا تو اس شاہین کی طرح ہے جو ہمیشہ آسمان کی بلندیوں کی سیر کرتا ہے ،آسمان کی بلندیوں میں اپنا مقام رکھتا ہے۔ لہٰذا تو بھی اپنی خودی اور اپنی شناخت کو سمجھ ،تب جاکے تجھے اپنا مقام نظر آئے گا ۔لہٰذا تو بھی اپنا بسیرا اپنے خالق کے دربار میں کر ،تو بھی کسی کے سامنے مت جھک اور نا ہی اپنی تہذیب کا شکار ہوجا، بلکہ خودداری محنت اور امید کے سہارے جینے کی کوشش کر
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
(رابطہ۔7889959161)
[email protected]