گُڑیا کی شادی
شاہجہان پور کی ہاوسنگ سوسائٹی میں تین پڑوسیوں کی بچیاں حور، شیریں اور چھایا ، ہمیشہ ایک ساتھ کھیلتی تھیں ،کبھی ایک سہیلی کے گھر تو کبھی دوسری کے گھر اپنے کھلونے لے کے روز جاتیں۔حور کبھی کبھار ہی نظر آتی کیونکہ وہ اکثر بابا کی ڈیوٹی کی وجہ سے شہر سے باہر رہتی تھی۔
شیریں اور چھایا کے پاس جب بھی نئے کھلونے آتے وہ اپنے گڑا اور گڑیا کی شادی رچاتے۔
اس بار شیریں کے پاس پیاری سی گڑیا تھی، جو سمندر پار سے ماموں جان نے خاص شیریں کے لئے لائی تھی۔ جس کے لمبے سنہرے بال اور گہری نیلی آنکھیں تھیں ۔ مانو جیتی جاگتی اپسرا تھی۔ جو بٹن دبانے سے پلکیں جھکا کر مسکراتی تھی اور مٹک مٹک کے چلتی تھی۔ شیریں کو گڑیا کیا مل گئی یوں سمجھو ساری کائنات کے اسکے ہاتھ میں آگئی ہو ، من ہی من اِتراتی کبھی گڑیا کے بال سنوارتی کبھی گود میں اٹھاتی، ہر دم گڑیا کو اپنے پاس رکھتی تھیں۔
چھایا کے پاس بھی پیارا سا گڑا آیا تھا ، جو رموٹ سے چلتا تھا۔ وہ اپنی دوست شیریں کے پاس بڑے چاو سے اپنا گڑا لےکر آئی۔
شیریں بھی اپنی انگریزی گڑیا لے کے آئی، چھایا ہکا بکا ہو کر رہ گئی، اور کہا ’تیرے پاس اس بار بہت پیاری گڑیا آئی ہے‘۔
چھایا اپنے ہی اندازہ میں ‘ہاں ’بولی۔ دونوں نے ہمیشہ کی طرح گڑا اور گڑیا کی شادی رچائی۔
معمول کے مطابق دوسرے روز بچیاں اپنے اپنے کھلونے واپس لے جاتیں تھیں۔ اس بار شیریں بیقرار تھی وہ گڑیا کے بغیر ایک لمحہ بھی نہ رہ سکتی تھی ۔ دل پر پتھر رکھ کے اس نے رات گزار دی ، دوسری صبح ماں اور بابا کے ساتھ مارکیٹ جانا تھا اپنے لیئے آنے والے تہوار کے لئے نئے ملبوسات لانے تھے۔ پورا دن بازار میں گزر گیا اور شیریں بابا کی گود میں سو گئی ، اب گڑیا کے بغیر اور ایک رات بیت گئی۔ دوسرے روز سکول کا کام ختم ہونے کے بعد اس کو اپنی گڑیا یاد آئی۔ وہ دوڑ کے چھایا کے گھر گئی۔ وہاں بچوں کا میلہ لگا تھا اور حور کئی مہینوں کے بعد آئی تھی۔ وہ اندر گئی تو چھایا سے اپنی گڑیا طلب کی۔ چھایا نے کہا دیکھ شیریں میں نے اپنے گڑو کی شادی حور کی گڑیا سے کی وہ اپنے ساتھ چاندی کی پالکی اور سونے کا سنگھاسن لے کے آئی ہے۔ تمہاری گڑیا خالی ہاتھ آئی تھی۔ میں نے اسے توڑ کر باہر زمین میں گاڑ دیا۔ شیریں بے قابو ہو گئی اس نے رو رو کے آسمان سر پر اٹھایا ۔ اس پر اسکی سہیلیاں جھگڑا کرنے لگی ۔حور ، شیریں اور چھایا کے والدین گھروں سے نکل کر آئے۔ شیریں نے کہرام مچا دیا تھا۔ بڑوں کی دخل اندازی سے بچے قابو میں آگئے۔
چھایا سے سب نے پوچھا کہ گڑیا کے ساتھ ایسا کیوں کیا ۔ وہ سہمی ہوئی بولی ودادی نے بھی تو دولہن چاچی کو ایسے ہی مار مار کر پہلے ہاتھ پاوں توڑ دیئے اور پھر کپڑے میں لپیٹ کر گھر کے پیچھے زمین میں دفنا دیا تھا‘۔
کیونکہ دولہن چاچی میکے سےاپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لائی تھی۔
���
ڈراونا خواب
وہ سولہ سال کا تھا تب، جب سے وہ چڑیا گھر اور باغ کی رکھوالی کر رہا تھا۔ سبھی اس کو مالی کاکا کہہ کر بلاتے تھے۔ پھولوں ، پودوں سے زیادہ وہ ان مختلف نسلوں کے پرندوں کا خیال رکھتا تھا جو ان پیڑوں کے مکین تھے ۔ ان پرندوں کی دیکھ بھال اپنی اولاد کی طرح کرتا تھا اور باغ کی دیکھ ریکھ بھی ان پرندوں کے لئے کرتا تھا تاکہ ان کو پنپنے کےلیے سازگار ماحول دستیاب ہو۔
پرندوں سے اتنی محبت اور قربت ہو گئی تھی کہ ان سے باتیں کرتا ان کو باقاعدہ تربیت دیتا تھا.۔ اس وجہ سے اس کو "پرندہ شناس" کا نام دیا گیا تھا ۔ پوری زندگی اس نے چڑیا گھر کےلئے وقف کر دی تھی۔
آج چالیس سال بعد اس نے خود کو تھکا ہوا محسوس کیا ، کیونکہ پہلی بار چڑیا گھر کی ویرانی اس کی سمجھ سے باہر تھی۔ پرندوں کا نظام درہم برہم ہوتے دیکھ وہ مایوس ہوکر کام سے گھر لوٹا۔
گھر کے ایک کونے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھ کر وہ خود سے باتیں کر نے لگا "میں اپنا کام ٹھیک سے کرتا ہوں، میری طرف سے دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، پھر ایسا کیا ہوگیا کہ اس چڑیا گھر کا توازن بگڑ گیا اور پرندے بگڑنے لگے"۔ یہی سوچ کے اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ گہری نیند سو گیا۔
وہ باغ میں داخل ہو گیا اس نے ایک مینا کو دوسری مینا کے ساتھ چونچ سے چونچ ملاکر بیٹھے دیکھ کر کہا جاؤ طوطے کے پاس اپنے گھونسلے میں۔ مینا بولی میں نے تو اس کا گھر چھوڑ دیا۔ آپ نے زبر دستی مجھے طوطے کے گھر بھیج دیا تھا۔ ہم دونوں آپس میں بہت پیار کرتی ہیں۔ دوسری مینا پہلی کے بغل میں چھپ کے بیٹھی رہی۔
دوسری جانب دو نر بلبل ایک دوسرے کو کھلا رہے تھے۔ مالی نے پھٹکار لگائی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اُلٹا دونوں نے کہا ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہیں۔
مالی آسمان کی جانب دیکھ کر بولا یا اللہ یہ میرے پرندوں کو کیا ہو گیا ہے۔ نر پرندہ نر کے پاس ہی سکون محسوس کرتا ہے اور مادہ پرندہ مادہ کے ساتھ۔ ہر نسل کے پرندوں کا یہی حال دیکھ کر وہ دیوانہ ہوا ۔وہ ہاتھ ملتا رہا چیختا رہا ، چلاتا رہا۔’ ایسا مت کرو یہ قانون قدرت کے خلاف ہے، تم پر پتھر برسنے والے ہیں، عذاب الہی آنے والا ہے ایسا مت کرو‘ وہ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا کہ اچانک دھڑام کی آواز سے وہ پلنگ سے نیچے گر گیا۔ بیوی ے پوچھا کیا ہوا۔ پسینے میں شرابور مالی استغراللہ پڑھ کر کہنے لگاکچھ نہیں میں کوئی ڈراونا خواب دیکھ رہا تھا۔
دارالاضعیف
(Old age home)
انسپکٹر صاحب میں نے آپ کو فون کرکے بلایا۔ اخبار، دودھ وغیرہ دروازے کے سامنے پڑا ہے، ابھی تک اندر سے کوئی اٹھانے نہیں نکلا۔ میں نے کئی بار دستک دی پر کوئی ردعمل یا جواب نہیں ملا۔ میرا نام صدیق ہے۔ میں اس کالونی کا دھوبی ہوں اور دوپہر کے بعد میں کپڑے لانے اور لےجانے آتا ہوں ۔
صدیق انسپکٹر اسد کو مکان کے قریب لے گیا۔ انسپیکٹر نے پوچھا یہاں کون رہتا ہے، یہ گھر کس کا ہے۔
صدیق بولا ’صاحب یہ محترم خلیل ماروی اور اس کی اہلیہ آسرا ماروی کا گھر ہے‘۔
انسپکٹر اسد نے اپنی ٹیم کے ساتھی کو دروازہ توڑنے کا حکم دیا ۔پولیس اہلکار نے دروازے کو ہلکا دھکا دیا اور دروازہ بنا کسی کوشش کے کُھل گیا۔حیران ہو کر جٹ سے بولا’سر دروازہ کھلا ہے‘۔
انسپکٹر اسد اور ان کی ٹیم اندرگئے تو مذکورہ جوڑے کو مرا ہوا پایا۔ فوت شدہ جوڑے کے مطمئن اور پرسکون چہرے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ لیکن ہونٹوں کا رنگ دیکھ ٹیم نے اندازہ لگایا کہ بزرگ جوڑے کو یا تو زہر دیا گیا ہے یا پھر انہوں نے زہر کھا کر خود کشی کر لی ہے ۔
انسپکٹر نے صدیق سے پوچھا اس جوڑے کی کوئی اولاد نہیں ہے۔؟ ’ہاں صاحب دو بیٹے ہیں دونوں بیرون ممالک میں کام کرتے ہیں ‘ صدیق بولا۔
انسپکٹر اسد سو چنے لگا اس عمر میں بزرگ جوڑے کو خود کشی کی کیوں سوجھی۔ جانچ کے دوران انہیں چائے کی میز پر ایک مختصر سا خط ملا جس میں لکھا تھا،
کافی سوچ بچار کے بعد ہمیں لگا کہ ہمارے لیے دنیا چھوڑ دینا بہتر ہے۔ جب تک ہم توانا تھے اور اپنا کام خود کرنے کے اہل تھے تب تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ ہم نے جو اولاد کے لئیے کیا ہمارا فرض تھا۔ انکے بچوں کو بھی سنبھالا وہ ہماری خوشی تھی۔
ہمیں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ اب ہم ضعیف ہو چکے ہیں ۔ایک بڑھاپا صحت سے جڑے کئی تقاضے اور مسائل لے کے آتا ہے۔
بچوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ماں آسٹریلیا میں بڑے بیٹے کے پاس رہے گی اور باپ لندن میں چھوٹے بیٹے کے پاس۔ لیکن ہمارے کہنے کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ ہمارے بچوں کی اپنی کئی مجبوریاں ہیں۔
لیکن ہماری بے بسی کا عالم کچھ اور ہے۔ ہم دونوں نے زندگی کی ہر للکار کا سامنا ایک ساتھ کیا۔ ایک دوسرے کا ساتھ تھا ،تبھی ہم زندگی کی ہر مشکل کو ٹھوکر مار کر آگے نکل گئے۔ایک دوسرے سے الگ رہ کر نہ ہم چین سے نہ جی پاتے نہ سکون سے مر پا تے۔ جیتے جی زندگی کے اس آخری پڑاؤ پر الگ رہنا ہمارے لئے مشکل تھا۔
ہمارا فیصلہ ہمارے لئے اطمینان کا فیصلہ ہے۔ ہمیں کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ ہماری حکام سے گزارش ہے کہ آجکل کے دور مصروفیت میں کسی کے پاس وقت نہیں ہے کہ بزرگوں کو سنبھالنے اور دیکھ بھال کرے۔
بیٹے ،بہویں، بیٹیاں سب اپنے کام کےلئے نکلتے ہیں۔ان کو بھی اپنی زندگی سنبھالنے کا موقع فراہم ہونا چاہئے۔
ایسے میں بزرگوں کےلیے دن گزارنا قیامت سے کم نہیں ہے ۔جوان جوڑوں کو کوسنے کے بجائے بزرگوں کی بقاء کےلئے کوئی حل طلب کیا جائے ۔ جس طرح بچوں کے لئے دارالاطفال (crèche) کھولے جا چکے ہیں اسی طرح بزرگوں کےلئے بھی دارالاضعیف( old age home) کا اہتمام کیا جائے تاکہ بزرگ لوگ کسی عملے کی زیر نگرانی زندگی کے آخری ایام سکون سے گزار سکیں۔
اس مقصد کیلئے ہم اپنی رہائش گاہ اور اس کے آس پاس کی زمین دارالاضعیف کے لئے وقف کر رہے ہیں۔ ہماری وصیت اور گھر کے دیگر کاغذات ہمارے تکیہ کے نیچے رکھے ہوئے ہیں ۔ ہماری آخری خواہش سمجھ کر اس کام کو پائے تکمیل تک پہنچا دیا جائے، اور اس گھر کا نام’’ آسرا دارالاضعیف" رکھا جائے ۔
���