افسانچے

ہلال بخاری
ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ

اندیشہ اور عشق
خدائے بزرگ و برتر نے جب اپنے بندے کو تخلیق کیا اور اسے باغ بہشت دیا رہنے کے لئے تو اس نے اس کو وفا و جفا کا اختیار بھی دے دیا۔ پھر اس نے چاہا کہ اسکا بندہ ہمیشہ وفا کو ہی چنے اور اس کے امتحان کے لئے اس نے سب اشیاء کو اس باغ بہشت میں اس پر حلال فرمایا۔ صرف ایک شے کے بارے میں فرمایا،
“اس کے قریب نہ جانا۔”
خدائے بزرگ و برتر نے اپنے پیارے بندے کو اس کے علاوہ ایک ہمدم و ہمنوا سے بھی نوازا تاکہ وہ دونوں خوش و خرم ابدی زندگی کے لافانی مزے لوٹتے رہیں۔
پھر وہ جوڑا باغ بہشت میں بہاروں کے مزے لوٹنے میں مگن ہوگئے اور اسی طرح سے سال ہا سال گذرتے رہے۔
پھر جب ایک دن وہ اس جگہ سے گزرے جہاں وہ حرام کی ہوئی شے تھی تو بندہ حیرت سے اس شے کو تکنے لگا اور اس کے دل میں کسی انجان اندیشے نے جنم لیا اور اپنی ہمنوا سے پوچھنے لگا،
” اس بارے میں کیا حکم تھا ؟”
اس نے کہا، ” مجھے تو کچھ پتہ نہیں۔”
” اس کی حرمت کے بارے میں کچھ تو حکم تھا مگر وہ کیا تھا مجھے بھی ٹھیک سے یاد نہیں رہا۔” بندے نے کہا۔
ان کی یہ باتیں خدائے لم یزل کا ایک سابقہ
بندہ سن رہا تھا جو آگ سے تخلیق شدہ تھا اور ان دونوں کو دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ پہلے سے ہی ان دونوں کا دشمن تھا کیوں کہ خدا ئے لم یزل نے انکو اس پر ترجیح دی تھی اور اسکا انکو اس پر اس طرح ترجیح دینا گورا نہ ہوا تھا۔ جب اسکو گوارا نہ ہوا تھا تو خدائے لم یزل نے اسکو اپنی بارگا سے دور کیا تھا لیکن اس نے عرض کیا،
“ربا، مجھے مہلت دے تاکہ میں ایسا جال بچھائوں کہ تیرے بندوں کو جن کو، تو نے مجھ پر ترجیح دی، میں اس جال میں پھنسانے میں کامیاب ہوجاؤں”
خداے لم یزل کو اپنے بندوں کا امتحان چونکہ پہلے سے ہی مقصود تھا لہٰذا اس نے فرمایا,
” تو کوشش کر مگر میرے چنندہ بندے تیرے جال میں نہ پھنسیں گے۔”
اگر چہ خدائے بزرگ و برتر کو معلوم تھا کہ یہ دشمن بھی بہت ساروں کو پھانسنے میں کامیاب ہوگا، اس لئے، اُن کے لئے جو کہ ہمیشہ اپنے اندیشے کے غلام بن کر اپنے دشمن کی پیروی کرنے والے تھے، اس نے جہنم بنایا۔
اب جب اس دشمن نے انکی بات سن لی تو اس نے سوچا،
” موقع غنیمت ہے۔ کیوں نہ انکے اندیشے کو استعمال کرکے انکو نافرمانی کرنے پر آمادہ کردوں۔”
پھر اس نے انکو اکسایا اور وہ سب کرایا جس سے انکے رب کو غصّہ آیا اور اس نے فرمایا،
” نیچے اُتر جاؤ۔”
تو وہ دونوں پریشانی کی شدّت میں ایک دوسرے کو کوسنے لگے اور ایک دوسرے کو گناہ کا مؤجد ٹھہرانے لگے۔ اور انکا دشمن ایک فاصلے پر بیٹھ کر ان پر ہنسنے لگا۔
پھر خدائے بزرگ و برتر نے ان دونوں سے مخاطب ہوکر فرمایا،
“اب جاؤ یہاں سے۔ آج سے تم اور تمہاری نسل ایک دوسرے کے دشمن ہونگے۔”
اور اس طرح فساد نے جنم لیا اور بابائے فساد، جو اس بندے کا اور اسکی نسل کا کھلم کھلا دشمن ہے، اس فساد کی آگ کو ہمیشہ جلائے رکھنے کے لیئے جدوجہد کرنے اور اپنی فوج تیار کرنے میں مصروف ہونے لگا۔
دوسری طرف جب بندے کو مہجوری کی ظلمتوں کا اندازہ ہوا تو اس کے دل میں وہ دلی جذبہ پیدا ہؤا جسکا نام بعد میں عشق پڑا۔ وہ اپنے خدائے لم یزل سے دور رہ کر تڑپنے لگا۔ جدائی کی اس دل چیر دینے والی کسک سے اس نیک بندے کو خود سمجھ آیا کہ اس سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے۔ پھر اس نے بے قرار اور پریشان ہوکر عرض کیا،
” ربّا، میں نے خود ہی خود پر ظلم کیا۔ اب تو رحم نہ فرمائے گا تو میں تو خسارے میں پڑ جاؤں گا۔”
جہاں اس بندے کے دماغ سے پیدا شدہ اندیشے نے اس کو ہلاکت میں ڈالا تھا وہیں اس کے دل سے پیدا شدہ عشق کے پاکیزہ جذبے نے اس کی رہنمائی کی۔ خدائے بزرگ و برتر جو اپنے بندے کی بیرونی اور اندرونی تخلیق سے خوب واقف تھا جیسے اسی موقعے کے انتظار میں تھا۔ اس کو خبر تھی کہ مہجوری کی کسک جتنی اس بندے کو ستائے گی اتنا ہی عشق کا جذبہ اس میں پختہ سے پختہ تر ہوجائے گا، جو اسکو بزرگ و برتر بننے میں مدد دیگا۔ پھر خدائے بزرگ و برتر کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے کہا،
“ٹھیک ہے میرے بندے، تجھے معاف کیا، اب جا اور موت کی زندگی جی لے۔”
پس شدت عشق میں جو آنسو بہائے گا، بعد مرگ وہ فضیلت پائے گا۔
���

فیصلہ
آج میں نے سوچا ہے کہ اب کے آپ پر ہی فیصلہ چھوڑتے ہیں۔ میرا اپنا ہی اندیشہ خود کبھی مجھ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے،
” بخاری صاحب آپکے فیصلوں پر کبھی کبھی شک ہوتا ہے۔”
چلو آج آپکو ہی جج بنے کا موقعہ دیتے ہیں۔
آج کل فیس بک پر ، انسٹا پر اور واٹس ایپ پر ریلز دیکھنے کا اور چھوٹے چھوٹے سٹیٹس رکھنے کا زمانۂ ہے۔
میں بھی اکثر ان ریلز کو دیکھ کر اپنی پسند کے مطابق ڈاؤنلوڈ کرکے وارٹس ایپ پر سیٹس رکھتا ہوں۔ ٹھیک ؟
ایک دن ایسا ہوا کہ میں ایسی ہی ریلز دیکھ رہا تھا کہ میری نظر پہلے ایک مشہور و معروف مولوی صاحب کی ریل پر پڑی۔
وہ فرما رہے تھے،
” میں جب مروں گا تو چار کو بیوہ کرکے مروں گا ( یعنی چار عورتوں کے نکاح
میں رہ کر مروں گا)۔ اگر خدا نا خواستہ چار سے کم کو بیوہ کر کے مرا تو میں اسے اپنی انسلٹ سمجھوں گا۔”
پھر جب میں نے آگے سکرول کیا تو ایک غیر مسلم آدمی فرما رہا تھا،
“مجھے بشیر بدر کا ایک شعر ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس شعر کا نچوڑ ہے کہ اگر تم کسی سے دشمنی بھی کرو تو اس طرح کرو کہ اس میں دوستی کی گنجائش بھی رہے۔ یعنی اگر آپ اور آپکا دشمن مستقبل میں کبھی دوست ہوئے، تو آپکو ایک دوسرے کے آگے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔”
اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ان میں سے بچکانہ اور احمقانھ خیال کس کا ہے اور دانائی سے لبریز اور بالغ نظری کس کی ہے؟ میں ان میں سے کونسی ریل اپنے سٹیٹس کے لئے چنتا اور کس پر عمل کرنا بہتر رہے گا؟
امید ہے آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنا ذیادہ مشکل نہ ہوگا۔