ترکی اور شام میں زلزلہ؛اموات کی تعداد 11 ہزار سے متجاوز،ریسکیو جاری

File Photo

انقرہ /دمشق//ترکی اور شام میں پیر کی صبح آنے والے زلزلے کی وجہ سے ہلاکتوں 11000سے تجاوز کر چکی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ متاثرین کی تعداد دو کروڑ 30لاکھ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق،زلزلے کے نتیجے میں اب تک مجموعی طور پر 11ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ریسکیو ورکرز تیسرے روز بھی ملبے تلے دبنے والوں تک پہنچنے کی کوششوں میں لگے رہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اب تک ترکیہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد8ہزارقریب جبکہ شام میں مرنے والوں کی تعداد3ہزارقریب ہوچکی ہے۔جب سے 7.8 شدت کے زلزلے نے تباہی کی داستان رقم کی ہے تب سے مسلسل 2 دن اور 2 راتوں سے منجمد کردینے والے موسم میں غیر منظم ریسکیو ورکرز کی ایک فوج ان کھنڈرات میں دبنے والوں کو تلاش کررہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ایڈھانوم گیبریئیسس نے خبردار کیا کہ ہزاروں زخمیوں اور ملبے تلے دبے زندہ افراد کے لیے وقت تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے۔زلزلے کے مرکز کے قریب واقع ترکیہ کے شہر قہر مان مرعش کے رہائشی نے کہا کہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، وہ اس ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے تھے جہاں ان کی 15 سالہ بیٹی کی لاش کنکریٹ کے ٹکروں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی اور انہوں نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔حتیٰ کے زلزلے میں بچ جانے والوں کے لیے بھی مستقبل انتہائی تاریک نظر آتا ہے۔
بہت سے متاثرین نے مسلسل آنے والے آفر شاکس، سرد بارش اور برف باری سے بچنے کے لیے مساجد، اسکولوں اور بس شیلٹرز تک میں پناہ لی ہوئی ہے اورحرارت کے لیے کچرا جلا رہے ہیں۔
تاہم امداد آنے میں سست روی سے لوگوں کا غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔
علی صغیروگلو نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’میں کھنڈر سے اپنے بھائی اور بھتیجے کو واپس نہیں لاسکتا، آپ یہاں آس پاس دیکھیں، کوئی بھی ریاستی عہدیدار موجود نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’دو روز سے ہم نے یہاں کسی سرکاری اہلکار کو نہیں دیکھا بچے ٹھنڈ میں جم رہے ہیں‘۔قریبی علاقے غازی انتیپ میں دکانیں بند ہیں اور حرارت کا کوئی انتظام نہیں کیوں کہ دھماکوں سے بچنے کے لیے گیس لائنیں منقطع کردی گئی ہیں جبکہ پیٹرول ملنا بھی انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ایک اور شہری نے بتایا کہ ریسکیو ٹیموں کے منتظر بے چین ہجوم نے بغاوت کردی جس پر پولیس کو مداخلت کرنی پڑی۔
کمبلوں میں لپٹے تقریباً 100 دیگر افراد نے ایئرپورٹ ٹرمینل کے لاؤنج میں رات گزار جہاں سے عمومی طور پر ترک سیاستدان اور اہم شخصیات آیا کرتے تھے۔
شمالی شام میں سرحد کے اس پار، ایک دہائی کی خانہ جنگی اور شامی-روسی فضائی بمباری نے پہلے ہی ہسپتالوں اور معیشت کو تباہ کر اور بجلی، ایندھن اور پانی کی قلت پیدا کردی تھی۔باغیوں کے زیر قبضہ علاقے جندیرس میں ایک نوزائیدہ بچی کو بچانے کی خوشی بھی ماند پڑ گئی، بچی نال کے ذریعے اپنی ماں سے جڑی ہوئی تھی جو اس آفت کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئی۔بچی کے رشتہ دار خلیل السوادی نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب ہم کھدائی کررہے تھے تو ہم نے ایک آواز سنی، ہم نے مٹی ہٹائی تو ایک نال سے جڑی بچی دیکھی جسے ہم نے کاٹا اور میرے کزن اسے ہسپتال لے گئے۔
بچی کا پورا قریبی خاندان زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہوچکا ہے جس کی تدفین منگل کے روز اجتماعی قبر میں کردی گئی تھی۔