عظمیٰ ویب ڈیسک
جموں// جموں و کشمیر میں راج بھون اور منتخب حکومت کے اختیارات کی تقسیم پر بڑھتی کشیدگی کے بیچ، مرکزی وزارت داخلہ نے واضح کیا ہے کہ اختیارات کے دائرہ کار بالکل واضح ہیں اور کسی قسم کی تضاد کی گنجائش نہیں ہے۔
یہ وضاحت اس وقت آئی جب عمر عبداللہ حکومت نے حالیہ کچھ معاملات پر اعتراضات اٹھائے۔
ڈپٹی چیف منسٹر سریندر چودھری نے کہا کہ عمر عبداللہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے مکمل اختیارات رکھتی ہے۔ تاہم، ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر کشیدگی مزید بڑھ گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل ڈی سی رینہ نے منتخب حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ان کا استعفیٰ مسترد کرتے ہوئے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت دی۔ تاہم، راج بھون کی منظوری نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنا عہدہ دوبارہ سنبھال نہ سکے۔
ایک اور تنازع اس وقت پیدا ہوا جب وزیر اعلیٰ کے عمرہ پر سعودی عرب جانے کے دوران راج بھون نے تین آئی اے ایس افسران کے تبادلے کے احکامات جاری کیے۔
مرکزی وزارت داخلہ کے ذرائع نے کہا کہ “ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری کا حق لیفٹیننٹ گورنر کو جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 اور 2023 کے ترمیمی ایکٹ کے تحت حاصل ہے، اور اس پر اعتراضات بلاجواز ہیں۔ اسی طرح، آئی اے ایس/آئی پی ایس افسران کے تبادلے کا اختیار بھی لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہے”۔
ذرائع کے مطابق، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی سے کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ قواعد و ضوابط کو جلد عام کیا جائے گا تاکہ اختیارات کے دائرہ کار پر تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
وزارت داخلہ کے ذرائع نے کہا کہ جے کے تنظیم نو ایکٹ کے تحت ایل جی اور وزیراعلیٰ کے اختیارات واضح ہیں۔ دونوں دفاتر عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنے کے پابند ہیں، اور کسی بھی قسم کے تصادم کو ہوا دینا عوام کے مفاد میں نہیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ جلد ہی قواعد و ضوابط کو عوامی کیا جائے گا تاکہ تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو اور اختیارات کی تقسیم کے حوالے سے کوئی الجھن باقی نہ رہے۔
وزارت نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری رہے گا، وزراء کو اپنے آئینی حدود کو سمجھنا ہوگا۔