ارشاد احمد حجام
سلیم ایک ڈیلیوری بوائے تھا ۔آج بھی وہ روزانہ کی طرح صبح کے وقت اپنے گھر سے نکلا ۔دفتر پہنچ کر انہوں نے مختلف آرڈرز اٹھائے اور ایک ایک کر کے اپنے بڑے سے بیگ میں پیک کئے ۔اس کے بعد اس فہرست پر ایک مرتبہ پھر نظر ماری اور ایک ایک کر کے سب چیزوں کو چیک کیا ، مطمعین ہو کر پھر وہ اپنی پیاری سی سیکوٹی پر سوار ہو گیا اور اپنے کام میں لگ گیا ۔دو چار آرڈرز کو مقررہ جگہوں پر بہ آسانی پہنچا دیا ،لیکن ایک پارسل کا پتہ صحیح نہیں تھا ،لہذا سلیم کو اس پارسل کے لئے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔اس پارسل کو ڈلیور کرنے کے لئے سلیم کو تقریبا دو چار گھروں کے اندر جانا پڑا ،لیکن پھر بھی صحیح ٹھکانہ ڈھونڈ نہ پایا ۔
آخری مرتبہ جب وہ ایک دروازے کے اندر داخل ہوا تو وہاں جا کر وہ تھوڑا سا حیران رہ گیا کیونکہ وہاں ایک عالی شان بنگلہ اور وسیع صحن موجود تو تھا لیکن کوئی مکین نظر نہیں آرہا تھا ۔گویا سناٹا چھایا ہوا تھا ۔سلیم بیچارہ دائیں بائیں آگے پیچھے دیکھتا رہا لیکن کہیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ وہ بڑا حیران ہو گیا کہ اتنے شاندار مکان میں کوئی شخص کیوں کر نہیں رہتا ۔آخر کار وہاں سے واپس نکلنے لگا تو اچانک پیچھے سے کسی نے اس کو پکارا ۔سلیم نے جب مڑ کے دیکھا تو ایک بزرگ شخص نورانی چہرہ لے کر اس کو پکار رہا تھا ۔سلیم نے اپنا تعارف جب کرایا اور ساتھ میں یہ کہا کہ کوئی پارسل ہے لیکن اس کا پتہ صحیح نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر غلط پتہ پر پہنچ گیااور معذرت کر کے وہاں سے پھر نکلنے لگا ،لیکن اس بزرگ آدمی نے اس کو روکا اور اندر آنے کے لئے کہا ۔سلیم نے جواب دیا ۔
“بابا جی دراصل، میں غلط پتہ پر آیا ہوں ،یہ پارسل شاید آپ کا نہیں ہے ۔”
بزرگ آدمی: ” ہاں بیٹا یہ پارسل میراتو نہیں ہے ،لیکن آپ ہمارے گھر آئے کچھ چائے پانی پی کر تو جائیے ۔”
سلیم :”نہیں شکریہ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے بہت سارا کام ابھی باقی ہے ۔”
بزرگ آدمی :’’جذباتی انداز میں بولا ’’بیٹا میرے لئے صرف پانچ منٹ رکو، میں نے لمبے عرصے کے بعد کسی نوجوان کو دیکھا ،آپ کو دیکھ کر مجھے اپنے بیٹے ۔۔۔۔۔‘‘
اس بزرگ آدمی کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے ۔سلیم یہ منظر دیکھ کر اور بھی حیران ہو گیا ۔اتنے میں اس عالی شان مکان سے ایک اور شخص، جو بظاہر نو کر دکھائی دیتا تھا ،نکلا اور اس بزرگ شخص کو سہارا دیا اور شفقت آمیز طریقے سے پارک میں کرسی پر بٹھا دیا ۔ سلیم نے پارسلوں سے بھرا بیگ ایک طرف رکھ دیا اور ڈرتے جھجکتے ان کے پاس بیٹھا۔
سلیم: “اب ان کی طبیعت کیسی ہے ؟ کیا یہ پہلے سے ہی بیمار تھے ؟”
نوکر: ” نہیں جناب ،یہ بالکل ٹھیک ہیں ۔میرے ہوتے ہوئے ان کو کچھ نہیں ہو سکتا ۔
بزرگ آدمی: “خدا تجھے سلامت رکھیں۔ اوپر والے کے علاوہ تم ہی تو میرا سہارا ہو۔ اندر جاؤ اور مہمان کے لئے چاے لے آو۔”
اس طرح نوکر اندر چائے لینے چلا جاتا ہے اور سلیم بزرگ آدمی سے باتوں میں مشغول ہو جاتا ہے ۔
سلیم: ’’ آپ کے گھر میں اور کوئی شخص نہیں ہے ؟‘‘
بزرگ آدمی :’’ہاں بیٹا ایسا ہی سمجھو ۔‘‘
سلیم :’’ایسا کیوں ؟‘‘
اسی دوران اندر سے نوکر چائے بنا کے لاتا ہے اور وہ ان کے پاس پہنچ جاتا ہے ۔
بزرگ آدمی :’’آہا ۔۔۔۔ یہ ہوئی نا بات ! اب ہم سب مل کر چائے پییں گے ۔ ایک ساتھ مل کر کھانے پینے کا مزہ ہی کچھ اور ہے !‘‘
سلیم :’’بابا جی آپ نے تو بتایا ہی نہیں آپ کے گھر والے کہاں ہیں ؟‘‘
بزرگ آدمی :”میری بیوی دو سال قبل اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئی ۔اس کے علاوہ میرے تین بیٹے ہیں ،جو ایک لمبے عرصے سے امریکہ میں رہائش پذیر ہیں ۔وہ مجھ کو بھول گئے ہیں ۔”
بزرگ آدمی پھر جذباتی ہو گیا اور آنکھوں سے ایک مرتبہ پھر آنسوں بہنے لگے ۔
نوکر: ’’ لالا جی چھوڑئے ان باتوں کو ۔بھول جائیے ان بیٹوں کو ، میں ہوں نا آپ کا بیٹا ۔‘‘
سلیم: ’’ کیا وہ یہاں نہیں آتے آپ کے پاس؟‘‘
بزرگ آدمی:’’ نہیں بیٹا ، وہ اپنی دنیا میں مست ہیں، وہ مجھ سے کھبی فون پر بھی بات نہیں کرتے۔‘‘
نوکر:’’ وہ مجھ سے کھبی کبھار بات کرتے ہیں ، شاید یہی جاننے کےلئے کہ ان کا باپ زندہ ہے یا نہیں تاکہ باپ کے مرنے کے بعد وہ مکان بیچ سکیں؟‘‘
سلیم:( بڑے ہی جذباتی انداز میں بوڈھے آدمی کا ہاتھ تھامتے ہوئے) ’’آج کے بعد میں آپ کا ایک اور بیٹا ہوں۔‘‘
بزرگ آدمی: ( ہاتھ اٹھا کر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے) ’’کون کہتا ہے کہ آج کے زمانے میں فرمابردار بچے نہیں ہیں، میرے سگے بیٹوں کے سوا۔‘‘
سلیم:” جب بھی مجھے اس علاقے میں پارسل کے لئے آنا ہوگا تو میں آپ سے ضرور ملنے آتے رہوں گا۔‘‘
بزرگ آدمی: ” خدا تمہیں سلامت رکھے ۔ اپنے والدین کا خیال رکھنا بیٹا۔‘‘
سلیم: ( لمبی سی سرد آہ لیتے ہوئے) ’’خدا نے مجھ سے وہ نعمت بچپن میں ہی چھین لی تھی۔ شاید اسی لئے آپ کی صورت میں وہ نعمت پھر سے مل گئی۔‘‘
سلیم کی باتیں سن کر تینوں اشخاص رنجیدہ ہوئے اور آنکھیں اشک ریز ہوئیں۔
بزرگ آدمی:” میرے بیٹے بھی ایک دن یہاں آئیں گے ، لیکن ان کو میرا چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوگا، کیونکہ میں تب زیر زمین ہونگا ۔‘‘
اس طرح سلیم کئی برسوں تک لالہ جی کے پاس کھبی کھبی جاتا رہا اور اس کی دل بہلائی کرتا رہا اور لالہ جی کا اکیلا پن بھی درد ہوگیا۔
ایک دن لالہ جی کی طبیعت بہت بگڑ گئی ، وہ اسپتال کے بیڈ پر زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ اس کے دائیں بائیں وہ دونوں منہ بولے بیٹے خون کے آنسوں رو رہے تھے۔اتفاقاً عین اسی وقت اس کے بڑے بیٹے نے نوکر کو فون کیا اور حسب معمول بوڑھے کا حال پوچھا لیکن اس مرتبہ نوکر نے روتے روتے جواب دیا ،
” صاحب جلدی آنا لالہ جی اپنے آخری سفر کی تیاری میں ہیں۔‘‘
بیٹا:” Really ،!O!!! پھر تو ہمیں آنا ہی پڑے گا ۔ میں اپنے بھائیوں کو بھی یہ بتاؤں گا ۔”
بوڑھا کچھ لمحوں کے لئے جیسے زندہ ہوگیا اور عجیب مسکراہٹ کے ساتھ اپنے آخری الفاظ ادا کر رہا تھا۔
” بڑی دیر کر دی مہربان آتے آتے”
لالہ جی نے سلیم اور نوکر کے سروں پر اپنے دونوں ہاتھ پھیر دیئے اور یوں اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے ۔ وہ دونوں رو رہے تھے ، لیکن سلیم کچھ زیادہ ہی غمگین تھا ۔وہ پھر سے یتیم ہوگیا ۔بہرحال لالہ جی کو دفنایا گیا اور دوسرے دن شام کے وقت اس کے تینوں بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے چہروں پر وہ جعلی پریشانی دور سے ہی نظر آرہی تھی۔ وہ تینوں بھائی آپس میں مکان بیچنے کا مشورہ ہی کررہے تھے کہ اچانک وہاں پولیس کے کچھ جوان اور سرکاری اہل کاروں کے ساتھ لوگوں کی ایک اچھی خاصی بھیڑ آگئی۔ لالہ جی کے خود غرض بیٹوں نے جب ان سے دریافت کیا کہ وہ لوگ کون ہیں ؟ تو پتا چلا کہ لالہ جی نے مرنے سے چند روز قبل اپنی ساری پراپرٹی مکان سمیت ایک فلاحی ادارے کے نام کردی تھی اور اسی سلسلے میں وہ اہل کار آئے ہوئے تھے اور لالہ جی کی ساری جائیداد اپنے قبضے میں لے لی اور اس طرح وہ تینوں بھائی نامراد ہو کر لوٹ گئے۔
���
ستورہ ترال پلوامہ کشمیر
موبائل نمبر؛9797013883