محمد تسکین
ولو مہو (بانہال)// سب ڈویژن بانہال کی تحصیل مہو منگت کے حسین و جمیل اور خوبصورت علاقے ملک کی آزادی کے بعد سے ابتک گونا گوں مشکلات کا شکار ہیں اور ان خوبصورت علاقوں میں رابطہ سڑکوں کو مختلف گاؤں تک پہنچانے اور طبی سہولیات کو میسر رکھنے کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے گئے ہیں ۔ضلع رامبن تحصیل کھڑی میں وادی مہو کا ولو علاقہ دور افتادہ پہاڑی علاقہ ہے اور پورا مہو منگت خوبصورتی اور سرسبز میدانوں اور چراگاہوں سے بھرا پڑا ہے۔ ولو ، مہو کے لوگوں کو سڑک رابطے سے ابھی تک جوڑا نہیں گیا ہے جس کی وجہ سے مہو کے مرکزی گاؤں سے تین کلومیٹر دور ولو میں معمولات کی زندگی متاثر رہتی ہے اور برفباری کے دوران عام لوگ محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مولوی جمال الدین نائیک نامی مقامی سماجی اور دینی کارکن نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ دہائیوں سے سیاسی جماعتوں نے مہو کا استحصال کر رکھا ہے اور ووٹ حاصل کرنے کے بعد کوئی بھی لیڈر ان کے مسائل کو حل کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں بھاری برفباری ہوتی ہے اور یہاں سے بیماروں خاص کر درد ذہ میں مبتلا خواتین کو تحصیل ہیڈکوارٹر کھڑی اور بانہال کے ہسپتال لیجانا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مہو میں سابقہ کابینہ وزیر اور ممبر اسمبلی بانہال مرحوم میر اسداللہ کے ہاتھوں دی گئی یونانی ڈسپنسری سب سے بڑا طبی مرکز
ہے جو یہاں تعینات چاڈورہ کے یونانی ڈاکٹر کے تبدیل ہونے کے بعد اب ڈاکٹر کے بغیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ولو مہو سے ہجوا اور باوا تک کی دس ہزار سے زائد کی آبادی کے علاوہ گرمیوں کے چھ مہینے تک یہاں رہنے والے دس ہزار سے زائد خانہ بدوشوں اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں یہاں سیر و سیاحت ، ٹریکنگ اور کرکٹ کھیلنے کیلئے آنے والے لوگوں کیلئے کوئی ڈاکٹر اور ہسپتال موجود نہیں ہے اور مہو میں پرائمری ہیلتھ سینٹرکا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ولو اور اچھگوڑن کی بستیوں کے بیچوں بیچ سے مہو نالہ بہتا ہے مگر اس پر پلوں کی تعمیر نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے سکولی بچوں کیلئے ہر وقت خطرہ لاحق ہوتا ہے اور عارضی پلوں کے اوپر سے آنے جانے والے سکول بچوں کی حفاظت کو لیکر والدین ہمیشہ فکرمند رہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ولو کے قریب ایک پل کی تعمیر کیلئے دو ایبیٹمنٹ دو سال پہلے محکمہ دیہی ترقی کی طرف سے تعمیر کئے گئے ہیں مگر اب تک اس پل کو آر پار جوڑنے کیلئے لینٹر یا لکڑی ڈالنے کا کام شروع ہی نہیں کیا گیا ہے اور اس صورتحال سے مقامی لوگوں اوریہاں سیاحت پر آنے والے لوگوں اور ہزاروں خانہ بدوشوں کی زندگی دشوار ہوگئی ہے ۔ ولو سے ہی تعلق رکھنے والے بشیر احمد نائیک نامی ایک اور شہری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ولو کے گاؤں سے ہی مہو کے خوبصورت مقامات بشمول تراجبلن ، موری ، اچھن ، رتن اور نس گلی وغیرہ کیلئے راستے جاتے ہیں اوریہاں سے ہی لوگ کولگام ضلع کے داندواڑ آتے جاتے ہیں مگر مہو سے ولو تک ابھی بھی سڑک تعمیر نہیں گئی ہے جبکہ ایک پگڈندی کو بھی آدھے کی راستے تک بنایا گیا ہے اور لوگوں کو نالہ کے کنارے پتھروں کے اوبڑ کھابڑ راستوں سے چل کر روزمرہ کے معاملات انجام دینے پڑتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ولو کی آبادی کیلئے راشن کا ایک سٹور کئی سال پہلے قائم کیا گیا ہے لیکن ابھی تک یہاں راشن کی تقسیم نہیں کی جا سکی ہے اور سٹور کی یہ عمارت خستہ حال ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ولو اور اچھگوڑن کی بستیوں کے بیچ سے بہنے والے مہو نالہ سے بستیوں اور لوگوں کی زمینوں کو خطرہ لاحق ہے اور اس نالے کے دائیں بائیں حفاظتی بنڈوں کی تعمیر ناگزیر ہے اور محکمہ فلڈ کنٹرول کو اس طرف توجہ دینی چاہئے ۔ انہوں نے یوٹی سرکار اور ممبر اسمبلی بانہال سجاد شاہین سے اس طرف توجہ دینے کی اپیل کی ہے اور ولو تک سڑک رابط اور پلوں کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔