عصرِ حاضرمیں دنیا کے مختلف ممالک کو جتنے بھی مسائل درپیش ہیں، اُن میں ایک سنگین مسئلہ ماحولیات میں بگاڑ کا ہے۔یہ واحد ایسا مسئلہ ہے ،جس پر ساراعالَم متفق ہے۔ ظاہر ہے کہ سازگار ماحول پر ہی انسان اور کرۂ ارض میں موجود تمام حیوانات، نباتات و موجودات ِعالم کی بقا کا انحصارہے۔اگرچہ عالمی سطح پر اس مسئلہ پرسوچ بچار ہوتا رہتا ہےاور اس پر قابو پانے کی تدابیر پربھی غور و فکر کیا جاتا ہے، تاہم مسئلہ ابھی تک جُوں کاتُوں ہے۔ دنیا کے بیش تر ترقی یافتہ ممالک نے پلاسٹک کی مصنوعات پر پابندی عائد کردی ہے جو روزہ مرہ استعمال میں آتی تھیں۔مگر ہمارے یہاں اب بھی پلاسٹک کےاستعمال کے مضر اثرات اور نقصانات سے باخبر ہوتے ہوئے بھی ہر کوئی بے خبر ہے۔
آرام پسندی،سُستی،کاہلی اور سنجیدہ غوروفکر سے آزاد ہمارے معاشرے شدت کے ساتھ متاثر ہوکر بھی تواتر کے ساتھ آلودگی کا زہر بتدریج پھیلا رہے ہیں،جس کے اثرات مختلف بیماریوں اوروبائی امراض میں ظاہربھی ہورہے ہیں۔ جبکہ تلخ سچائی یہی ہے کہ دنیا میںترقی کے چرچے تو ضرور ہیں مگراس کے ساتھ تنزلی کے خطرات سے بھی دُنیا دوچار ہوتی جا رہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید زندگی، آسائشات کی بھرمار، حرص اور طمع انسان کو سُدھارنے کے بجائے بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہے۔ دنیا کو درپیش بہت بڑے مسائل اور خطرات میں پہلا ،دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے جبکہ کرئہ ارض کے قدرتی ماحول میں بگاڑ، آلودگی میں تیزی سے اضافہ، موسمی تغیرات، وبائی امراض میں اضافہ، مختلف ویٹو پاور ممالک کے مابین کشیدگی، عدم تحمل مزاجی ،دن بہ دن جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ اوریوکرین اور غزہ میں جاری جنگ کے علاوہ طبقاتی کشمکش، معاشرتی ناہمواری، غربت، پسماندگی اور نئی سردجنگ کاآغاز بھی انسانیت کی سلامتی کے لئے بڑے خطرات ہیں۔اس تناظر میں پرکھا جائے تو آج کا نام نہادترقی یافتہ انسان اب بھی نیم وحشی نظرآتا ہے۔ سیاسی ،معاشی، سماجی اقدار پرپست ذہن، خود غرض اور ظالم نظر آتا ہے۔ اس کا ثبوت روزمرہ کی خبروں ، کہیں نہ کہیں جنگ و جدل میں ہورہی انسانی ہلاکتوں اورفساد پروری سے بخوبی ملتا رہتا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ وغیرہ میں جہاں گھنے جنگلات واقع ہیں ،وہ ہماری زمین کے قدرتی ماحول کا اہم حصہ ہیں، پھر بھی ہم جنگلات کی کٹائی سے باز نہیں آتے، آلودگی میں اضافہ کرنے سے باز نہیں رہتے، آلودگی کو کم سے کم سطح پر لانے کیلئے جو تجاویز اور طریقہ کار وضع کئے گئے ہیں ،ہم اُن پر عمل کرنے پر قطعی مائل نہیں ہوتے، بالخصوص ہمارے معاشرے دنیامیںجاری تیز رفتاری ترقی کی دوڑمیں شامل ہونے سے بالکل قاصردکھائی دیتے ہیںاور ہم آج بھی تو ہم پرستی، غیر سائنسی فکر اور سنجیدہ غوروفکر سے عاری ہی نظرآتے ہیں۔ ماحولیات، موسمی تغیرات اور احتیاط پسندی کو ہم خاطر میں نہیں لاتے ہیں جبکہ ترتیب اور توازن کائنات کا پہلا اصول ہے۔
جدید خلائی تحقیق کے ہوشربا انکشافات سے انسان کی عقل حیران ہے اوریہ جانتے ہوئے بھی کہ ماحولیات میں بگاڑ، موسمی تغیرات اورآلودگی میں اضافہ ہورہا ہے ایک حقیقت ہے،پھر بھی ہم اپنی اپنی گلیوں میں کچرے کے ڈھیر ٹھکانے لگانے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف انسانیت قدرتی ماحول سے پریشان ہے اور ہم اپنے ہی معاشروں کے طرزِماحول سے پریشان و حیران ہیں۔شائد اسی طرح کی سوچ رکھنےوالوں کے طرزِ ماحول سے سقراط کو زہر پینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سمندری حیاتیات کی آدھی اقسام گزشتہ پچیس برسوں میں نایاب ہو چکی ہیں۔جس کی وجہ سے مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار سمندروں میں ڈالاگیا کچرااور پلاسٹک کھانے پر مجبور ہیںاور اس وجہ سے اِن کی نسلیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔غور کریں تویہی صورت حال ہمارے یہاں کے دریائوں ، جھیلوں اور ندی نالوں میں بھی پائی جاتی ہے۔سائنس داں اورماہر بشریات بار بار انتباہ دیتے رہتے ہیں کہ آلودگی کی بڑھتی رفتارتمام جاندار مخلوقات کی بقاء کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے مگراُلٹے دماغ عناصر اور طالع آزما اس نظر یہ کے خلاف متروک دلائل دے کر عوام کو مخمصے میں ڈالتے ہیں۔آلودگی کی وجہ سے ماحولیات میں تنائوپر کئی کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں ،دستاویزی فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں مگر ترقی پذیر ممالک بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کےرہنمائوں اور قانون سازوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ہے۔