زاہد بشیر
گول
علاقہ گاگرہ، جو ضلع رام بن سب ڈویژں کا ایک اہم حصہ ہے، بنیادی سہولیات سے محرومی کا شکار ہے۔ مقامی افراد کے مطابق، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، تعلیم و صحت کی ناکافی سہولیات اور خراب سڑکوں کا مسئلہ یہاں کے رہائشوںکی زندگیوں کو مزید مشکلات میں ڈال رہا ہے۔جہاں آج مرکزی و یو ٹی سرکاریں یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ ہر ایک گائوں کو سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے جوڑا گیا ہے اور سرکار تعلیم و صحت پر اپنی پوری توجہ مرکوز کر رہی ہے وہیں ضلع رام بن کا دور دراز گائوں علاقہ گاگرہ جو سب ڈویژن گول سے12کلو میٹر کی دوری پر واقعہ ہے اور اگر یہ کہیں کہ یہ ضلع رام بن کا آخری گائوں ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ اس کی پہاڑی ضلع کولگان و شوپیان سے بھی ملتی ہیں اور دوسری طرف گلا ب گڑھ و بانہال سے بھی ملتی ہیں اور آج اکیسویں صدی میں یہ آخری گائوں سڑک جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔
سڑک:
2000میں علاقہ جمن سے پی ایم جی ایس کے تحت گول گاگرہ سڑک پر تعمیر ی کام شروع کیا گیا تھا اور آج بھی یہ سڑک گاگرہ کو چھو نہیں پائی ہے اس کو دس برس قبل 3کلو میٹر پہلے ہی چھوڑ دیا گیا اور آج تک یہ گائوں کے ساتھ جوڑا نہیں گیا ۔ اس سڑک کے بیچ میں 4پل آتے ہیں گوڈری نالہ پل پر7سال سے کوئی کام نہیں ہوا اور اس کے علاوہ ہارہ میں تین پل اسی سڑک پر آتے ہیں اور ہر سال یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مارچ کے مہینے تک ان پلوں کو مکمل کیا جائے گا لیکن ابھی تک کسی بھی پل کی بنیادی تعمیربھی مکمل نہیں ہوئی ۔ گر چہ گوڈری نالہ پل پر ڈی ڈی سی چپر پرسن نے بھی ربن کاٹ کر اس کا افتتاح کیا تھا اور اس کو ایک سال کے اندر اندر مکمل ہونے کا دعویٰ کیا تھا لیکن ایک ماہ کے اندر اندر اس پر کام بند ہوا اور آج دو سال گزر گئے ہیں ۔ ان پلوں کو ایک دو دن کام چلتا ہے اور نا معلوم وجوہات کی بناء پر بند ہوتا ہے ۔ اور آج بھی لوگ بھاری بوجھ کاندھوں پر اُٹھا کر اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں اور کچھ لوگ خچروں کے ذریعے سامان لاتے ہیں ۔
تعلیم:
تعلیمی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت خستہ ہے، اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے بچوں کو معیاری تعلیم نہیں مل پا رہی ہے کچھ علاقوں میں تو اسکول کی عمارتیں بھی موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کو کئی کلومیٹر پیدل چل کر دوسرے گاؤں جانا پڑتا ہے۔تعلیم کے لحاظ سے یہ علاقہ کافی پچھڑا ہوا ہے اور یہاں اس علاقے میں دو سو سے زائد کنبے رہائشی پذیر ہیں ان کے لیئے ایک ہائی سکول اور دو پرائمری سکول ہے جن میں سے ایک نیو ٹائپ پرائمری سکول بھی شامل ہے ۔ ہائی سکول گاگرہ میں 18عملہ ہیں جن میں سے صرف 4ہی یہاں پر ہوتے ہیں باقی پوسٹیں کچھ خالی ہیں تو کچھ کو اٹیچ کیا گیا ہے جس وجہ سے یہاں بچوں کا مستقبل کافی تاریک دکھ رہا ہے ۔ سکول میں کچھ نئی تعمیربھی ہوئی تھی لیکن وہ تعمیر ہونے کے ساتھ ہی نیست نابود ہو کر رہ گئی ہیں اور ٹھیکیداروں نے خزانہ عامرہ کو چونا لگا کر لاکھوں کمایا ۔وہیں ناید باس میں 14برس قبل ایک نیو ٹائپ پرائمری سکول کھولا گیا جہاں یہ سکول ابھی بھی ایک کمرے میں اپنا نظام چلا رہا ہے اور مقامی لوگ اگر چہ سکول میں بہتر تعلیم پر خوش ہیں لیکن یہاں جگہ کی شدید قلت سے بچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ و والدین بھی کافی پریشان ہیں ۔ وہیں ایک اور پرائمری سکول کی کہانی بھی کچھ الگ ہی ہے یہاں ’لٹہ آڑ‘ کے مقام پر ایک پرائمری سکول کا قیام بھی کئی سال قبل عمل میں لایا گیا پہلے چند سال یہ سکول اچھی طرح چلا اور یہاں پر سرکار نے پکی عمارت اور بیت الخلا ء بھی تعمیر کئے لیکن یہاں پر اچانک سکول بند کر دیا گیا اور اس سکول میں جو بچے زیر تعلیم تھے والدین کو مجبو رہو کر دوسرے اسکولوں میں ان کا داخلہ کروانا پڑا اور محکمہ تعلیم سے کئی مرتبہ اس سلسلے میں استدعا بھی کی تھی لیکن نا معلوم وجوہات کی بناء پر اس سکول کو دوبارہ نہیں کھولا گیا اور سکول مکمل طور پر نا قابل استعمال ہے کسی بھی وقت یہ عمارت گر سکتی ہے ۔
صحت:
یہاں پر ایک سب سینٹر ہے جو ایک نجی رہائشی مکان میں چل رہا ہے ۔ مقامی لوگوں کے مطابق اگر چہ یہاں پر ایک ہیلتھ سینٹر کی تعمیر کافی عرصہ قبل شروع کی گئی تھی لیکن بیچ میں اس کا کام روکا گیا اور یہ عمارت اب کھنڈر کی شکل اختیار کر گئی ہے اس عمارے میں پیڑ پودے اور جھاڑیاں اُگ آئی ہیں اگر جلد از جلد اس کی تعمیر مکمل نہیں کی گئی تو یہ کسی بھی وقت ڈھہ سکتی ہے اور لاکھوں روپے کا نقصان ہو سکتا ہے ۔ ہیلتھ سینٹر میں ساز و سامان آ سکتا ہے اور یہاں پر دیگر سہولیات بھی میسر ہو سکتی ہیں لیکن اس ادھوری عمارت کی وجہ سے یہاں ایک مسئلہ بنا ہواہے جس پر متعلقہ حکام بھی کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے ۔
پانی
علاقے میں صاف پانی کی عدم دستیابی مقامی لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ تر گھروں کو گندے پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جس سے صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے نئے واٹر سپلائی پروجیکٹس کے وعدے کیے گئے، لیکن وہ تاحال پورے نہیں ہوئے۔محکمہ جل شکتی کی جانب سے یہاں پر کئی حوض سالوں قبل تعمیر کئے گئے ہیں لیکن اببھی تک ان میں پانی کی بوند تک نہیں ڈالی گئی ۔ علاقے کے لوگ آج بھی پرانے زمانے کی طرح پانی حاصل کرنے کے لئے چشموں کا رخ کرتے ہیں اور کئی جگہوں پر جو پرانی پائپیں ہیں وہ بھی جگاڑ کر کے ان میں پانی لایا جا رہا ہے ۔ مرکزی سرکار کی جانب سے جل جیو مشن JJMکا یہاں کوئی نام و نشان بھی دکھ نہیں رہا ہے کئی جگہوں پر پائپوں کے ڈھیر نظر تو آئیں گے لیکن اس سکیم کے تحت ابھی تک کوئی بھی کام نہیں ہوا ہے اور لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں ۔
دیگر مسائل
علاقے میں دیگر مسائل جن میں بجلی نظام کو ٹھیک کرنا ہے کئی جگہوں پر لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ تاریں جوڑی ہوئی ہیں ، لوگوں کے گھروں تک بہتر بجلی نظام نہیں ہے کسی بھی وقت کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے ۔ علاقے میں پہلے محکمہ حیوانات کا ایک سینٹر ہوا کرتا تھا جو وہاں سے اُٹھا کر گنڈ علاقے میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا جو علاقہ گاگرہ سے کافی دور ہے ، یہاں پر آنگن واڑی سینٹر برائے نام ہیں یہ سینٹر اکثر بند رہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سرکار کی جانب سے جو بھی اسکیمیں دی جاتی ہیں علاقہ ان اسکیموں سے محروم ہوتا ہے کیونکہ یہ علاقہ پہلے سڑک جیسی سہولیات سے ہی محروم ہے جس وجہ سے ان تک کوئی بھی آفیسر نہیں پہنچ پاتا ہے ۔
حکومتی بے حسی
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے متعدد بار حکام سے درخواست کی ہے، لیکن ان کی فریاد پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ترقیاتی منصوبے اکثر شروع ہونے سے پہلے ہی فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔علاقے کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر اقدامات کرے اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرے۔ عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں تاکہ گاگرہ کے لوگ بھی بہتر زندگی گزار سکیں۔