عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//پولٹری شعبے میں پالسیوں کی تبدیلی کی وکالت کرتے ہوئے فیڈریشن آف چیمبرز آف انڈسٹریز کشمیر نے حکومت پر زور دیا کہ اس خطے کی پیداواری صلاحیت کو کھولنے کی ضرورت ہے۔فیڈریشن نے نشاندہی کی کہ پولٹری صنعت نے عمر عبداللہ کی سربراہی والی پہلی حکومت کے دوران کامیابی حاصل کی اورمقامی طلب کا تقریباً 85فیصدمرغ گھریلو پیداوار کے ذریعے فراہم کیا۔فیڈریشن نے کہا کہ مقامی پولٹری پیداوار تقریباً 300فیصد تک گر گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت، صنعت صرف 25فیصد مقامی طلب کو پورا کر رہی ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں مزدوروں کی ملازمتیں ختم ہو گئیں۔ چیمبر نے اس کمی کا سبب’’جموں کشمیر کی دوبارہ تنظیم کے بعد غیر موزوں پالیسی تبدیلیوں کو قرار دیا، جو مقامی پیدواری شعبے کے مقابلے میں غیر ملکی سپلائروں کو زیادہ فائدہ پہنچاتی ہیں۔چیمبر نے کہا کہ پہلے حکومت کی جانب سے مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے درآمد شدہ چکن پر لکھن پور چیک پوسٹ پر9 روپے فی کلو گرام کا ٹیکس عائد کیا جاتا تھا اور یہ ٹیکس نہ صرف آمدنی پیدا کرتا تھا بلکہ مقامی کسانوں کے لیے ایک برابر کا میدان فراہم کرتا تھا۔فیڈریشن نے کہاکہ 2020 میں ٹول کی واپسی اور لکھن پور ٹول پوسٹ کے خاتمے نے مقامی پولٹری صنعت پر شدید اثر ڈالا، جس کے نتیجے میں پیداوار میں 300فیصد کی کمی آئی اور اب یہ صرف 25فیصد مقامی طلب کو پورا کر رہی ہے۔