عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//ماہرکاریگروں کی کمی،کشمیر کی لکڑی کی آسمان کو چھوتی قیمتیں اوربیرون ریاستوں سے ریڈی میڈ پنجرئوں کی در آمد ی کے نتیجے میں وہ خوبصورت پنجراکاری جس نے صدیوں سے کشمیر کی مساجد، درگاہوں اور سرکاری عمارتوں کو رونق بخشی، اب قصہ پارینہ ہونے کے دور پر ہے ۔نئے کاریگروں کی جانب سے اس فن کاریگری کو پنانے میں ہچکچاہٹ بھی پنجراکاری کے زوال کا باعث بن رہی ہے تاہم چند ایک کاریگروں کی امید افق ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ اس قدئم فن کو مرنے نہیں دیا جائے گا۔جالیوں کے کام کا ہنر، جسے مقامی طور پر پنجراکاری کے نام سے جانا جاتا ہے، کشمیر میں دم توڑ رہا ہے کیونکہ کوئی بھی اس فن کو سیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔کشمیر میں اندرونی ڈیزائننگ کے سب سے پیچیدہ دستکاری کے زوال کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ محنت طلب اور مہنگی ہے۔پنجرکاری فن، کافی حد تک، ختم بند سے ملتا جلتا ہے، جس میں چھت کو لکڑی کے چھوٹے تختوں کے ساتھ مختلف ڈیزائنوں میں جوڑا جاتا ہے۔پائین شہر کے عالی مسجد عیدگاہ کے رہائشی آفتاب احمد پنجرا کاری کاریگر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کھڑکیوں پر پنجرا کاری کرنا اب قابل عمل کام نہیں رہا کیونکہ یہ بہت مہنگا ہے۔لسجن سرینگر سے تعلق رکھنے والے حاجی بشیر احمد نجار، جو پنجرا کاری سے بخوبی واقف ہیں، کہتے ہیں کہ کشمیر میں بہت کم پنجراکاریگر موجود ہیں کیونکہ کچھ فوت ہوچکے ہیں اور کچھ نے یہ کاریگری چھوڑ دی ہے۔نجار نے کہا کہ ہم نے نہ صرف کاریگر کو کھو دیا ہے بلکہ ہم نے اس فن کی سمجھ بھی کھو دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جدید جیومیٹری کا استعمال خوبصورتی اور کمال کی سطح کو حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا تھاجو ہم اب بھی روایتی کام میں پاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وادی میں 100 سے زیادہ مختلف پنجراکاری ڈیزائن ہیں اور کچھ استاد کاریگروں نے جدت کے ساتھ شاندار ڈیزائن تیار کیے ہیں۔ حاجی بشیر کا کہنا ہے کہ ’گل آفتاب اور دولے کوندورے جدید دور کے کاریگروں کے ذریعہ وسیع پیمانے پر بنائے گئے نمونے ہو سکتے ہیں، لیکن چنگس خانی، شاشتز، موج، موج حیدر، کندور، کریپ کوندرے، دعوز گرڈ، دعوزنجک، پنچ مرابہ، دیہہ تیز، دعوز دیہ، سہاش پہلو بھی بہت مقبول ہیں۔پنجرا کاری کے نمونوں کا نام زیادہ تر فارسی میں رکھا گیا ہے جہاں اسی طرح کی ایک ایسی تصنیف جو عربی لفظ تک بھی پہنچی ہے اسے مشربیہ کہتے ہیں۔فن کے احیاء کو مشکل قرار دیتے ہوئے، نجار نے کہا’’ہنر سیکھنے کے لیے جس صبر کی ضرورت ہوتی ہے وہ کام کرنے کے علاوہ بہت زیادہ محنت طلب اور صارفین کے لیے مہنگا ہوتا ہے۔‘‘رام باغ کے محمد عباس نامی پنجرا کاریگر کا کہنا ہے کہ آج کل زیادہ تر کاریگراسے ٹھیک کرنے کے روایتی طریقے پر جانے کے بجائے مضبوطی حاصل کرنے کے لیے لکڑی کے جوڈوں میں گوند کا استعمال کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آج کل یہ د پنجراکاری کاریگر، سابقہ ڈیزائنوں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ ڈیزائن مختلف سادہ سائنسی طریقوں کی پیداوار تھے جنہوں نے اس طرح کے پیچیدہ نمونے تیار کیے تھے۔محمد عباس نے کہا کہ اس فن کو مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہالکڑی کافی مہنگی ہے اور ہم مصنوعات کی
لاگت کو کم کرنے کے لیے کم قیمت کی عام لکڑی کا استعمال کر رہے ہیں۔