بے شک وہی معاشرہ ہمیشہ خوش رہتا ہے جس نے اخلاقی محاسن کو اپنالیا ہو،اور سب سے زیادہ پُر سکون اور سکھی معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں ہر شخص ایک دوسرے کے تئیں دلی احترام کا جذبہ رکھتا ہو،کیونکہ معاشرہ جسم کی ہی مانند ہے،اگر کسی حصہ میں کوئی تکلیف ہے تو درد سب کو محسوس ہونا چاہئے۔آج اگر ہماری معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا کوئی مسئلہ ہے تو مختصر اور جامع یہی ہےکہ صبر و برداشت کی کمی اور ایک دوسرے کے تئیں دلی محبت اور جذبۂ احترام کا فقدان ۔ یہ وہ خامی یا خرابی ہے ، جس نے اوپر سے نیچے تک ہمارے معاشرے کا احاطہ کررکھا ہے ۔ گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہماری معاشرتی زندگی کو لاحق تمام مسائل اسی خامی یا خرابی سے وابستہ ہیں اور اسی کے بطن سے پھوٹتے ہیں۔ گویا صبروتحمل اور جذبۂ احترام کا فقدان ہمارے معاشرے کےلیے ام المسائل کا مقام رکھتا ہے۔صبر وتحمل اعلیٰ درجے کی اخلاقی صفت نمایاں ہوکر بروئے کار آتی ہے، اس کے اندر وقار، ٹھہراو، بردباری اور حلم برگ وبارلاتے ہیں اور ایسا معاشرہ یا فرد ہر قدم ٹھہر ٹھہر کر، اچھی طرح ناپ تول اور سوچ سمجھ کر اُٹھاتا ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے ہر واقعے پر غور وفکر کرتا ہے، تدبر سے کام لیتا ہے، مشاورت کرتا ہے، اس کے اثرات ومضمرات کاجائزہ لیتا ہے اور پھر اس کا مقابلہ کرنے کےلیے جوسب سے بہتر تقاضا ہوتا ہے، اس کے مطابق قدم اٹھاتا ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرہ میں صبر وبرداشت کی کمی اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کی صفت نہ پائی جائے، ایسا معاشرہ کسی دُوررس اور صائب فیصلے تک کبھی نہیں پہنچ سکتا ۔ ایسی سوچ اور عادات وصفات کا حامل معاشرہ کسی کام میں کامیاب ہوسکتا ہے نہ ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھ سکتا ہے۔
صبر وبرداشت کی انفرادی اور اجتماعی صفت اور ایک دوسرے کے تئیں احترام کا جذبہ انسانی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ صبر وبرداشت کی طرح جذبۂ احترام بھی کئی لباس میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ایک برداشت یہ ہے کہ ایک فرد کو دوسرے فرد کے ہاتھوں صدمہ پہنچے تو وہ اسے برداشت کرے، کسی سے خلاف طبع بات سُنے تو بجائے ردعمل دینے کے برداشت کرے اور کوئی آپ کے موقف، فکر ، نظریہ اور خیال سے مختلف رائے اور خیال اختیار کرے تو آپ اسے برداشت کریں اور اس کا حق اختلاف تسلیم کریں۔یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق صبر و برداشت اور تحمل کا بنیادی تقاضا ہے۔معاشرتی زندگی میں صبر وبرداشت اور جذبۂ احترام ایک فرد کےلئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور فرد کے مقابلے میں معاشرہ کی اجتماعی زندگی میںایک دوسرے کے تئیں جذبہ ٔاحترام کے تحت صبر وبرداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہےاور قدم قدم پر ہوتی ہے۔ آج دیکھئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اجتماعی اسٹیج پر دیکھا جائے تو ایک دوسرے کے تئیں احترام کا جذبہ کہیں نظر ہی نہیں آتا ہے۔ کوئی بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کوتیار نہیں۔کسی شخص کی کامیابی اور بلندی کا راز یہ ہے کہ انتہائی جذباتی مواقع پر انتہائی عقل و دانش سے فیصلہ کرے۔ انفرادی زندگی میں تحمل اور صبر و ضبط کی ضرورت تو ہے ہی، لیکن اس کی اہمیت اجتماعی جگہوں میں مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر تحمل ، صبر و ضبط اور جذبۂ احترام سے کام نہ لیا جائے توزندگی گزارنامشکل ہوجائے۔ اپنی شخصیت کو نکھارنے، مسائل سے نجات پانے اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جذبات کو قابو میں رکھا جائے۔ صبرو تحمل کا وصف انتہائی مفید و معنی خیز ہے، اس سے سعادت و بھلائی اورسکون و اطمینان کے مواقع تو ہاتھ آتے ہی ہیں، ساتھ ہی صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کی قیادت و امامت کا درجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل اور جذبۂ احترام سے کام لیا جائے، پُرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر ہمیںسیرتِ نبویؐ کے پہلو کو اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔آج معاشرے کو جس قدر اپنی اجتماعی زندگی میں صبروبرداشت کی ضرورت ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے اس کی اتنی ضرورت کم ہی پیش آئی ہے۔ آج ہمیں اپنے ناکافی وسائل اور کمزور نظام کے ساتھ مختلف مسائل ومشکلات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت ماہِ رمضان کا مبارک مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے اور یہ وقت ہے کہ پورا معاشرہ ایک ہوجائے۔ تمام اختلافات بالائے طاق رکھے جائیں اور ایک دوسرے کے تئیں دلی محبت اور جذبۂ احترام کا اہتمام کیا جائے ،اسی میں ہمارے معاشرے کی سرخروئی ہے۔
صبروتحمل اورجذبۂ احترام کا فقدان
