Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

تعلیم ِنسواں | لڑکیوں کی تعلیم اور ہمارا معاشرہ ! حالات بدلے ضرور لیکن اتنے بھی نہیں بدلے

Towseef
Last updated: December 14, 2023 12:06 am
Towseef
Share
8 Min Read
SHARE

تنوجا بھنڈاری

آزادی کے بعد سے ہندوستان میں تعلیم کے حوالے سے بہت سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ مرکز سے لے کر ملک کی تمام ریاستوں تک کی حکومتوں نے اس سمت میں بہت سے مثبت اقدامات کیے ہیں۔ یہاں تک کہ نظریاتی اور سیاسی طور پر مخالف حزب اختلاف نے ہمیشہ اس مدعے پر حکومت کی حمایت کی ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جس پر سب کا اتفاق ہے۔ تمام حکومتوں کا بنیادی مقصد ملک میں شرح خواندگی کو بہتر بنانا رہا ہے۔ اس کے لیے وقتاً فوقتاً تعلیمی پالیسی بھی بنائی جاتی رہی ہے۔ ملک میں پہلی بار تعلیمی پالیسی 1968 میں نافذ کی گئی۔ اس کے بعد 1986 میں نئی تعلیمی پالیسی نافذ کی گئی اور سال 2020 کی نئی تعلیمی پالیسی اس سمت میں ایک اہم قدم ثابت ہوئی ہے۔ اس سب کے درمیان سال 2000، 2005 اور حق تعلیم ایکٹ 2009 تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔ انہی کوششوں کی بدولت ملک کی شرح خواندگی میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔پورے نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جس کے بہت مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ اگر ہم آزادی کے بعد سے خواتین کی شرح خواندگی پر نظر ڈالیں تو اس میں کافی بہتری آئی ہے۔ ملک میں کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں خواتین کی شرح خواندگی میں غیر متوقع بہتری آئی ہے۔ اس کے لیے جہاں مرکزی حکومت کی اسکیموں کو ایک عنصر سمجھا جاتا ہے وہیں ریاستی حکومتوں کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اپنی سطح پر چلائی جارہی مختلف اسکیمیں بھی اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

لیکن صرف حکومت کے یکطرفہ اقدام سے لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے میں بہتری نہیں آئے گی۔ اس میں معاشرے کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ہر اس معاشرے میں بہت مثبت بہتری دیکھی گئی ہے جس نے خواتین کو بااختیار بنانے اور لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے میں پہل کی ہے۔ لیکن اس وقت بھی ہمارے ملک میں بہت سے دیہی معاشرے ہیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے لوگوں کی سوچ اب بھی منفی ہے۔ جہاں لڑکیوں کو تعلیم دینے کے بجائے پورا معاشرہ نہ صرف ان کی شادی کا خیال رکھتا ہے بلکہ خاموشی سے بچوں کی شادی (بال ویواح)کی حمایت کرتا ہے۔ایسا ہی ایک گائوں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گڑڑ بلاک کا جوڈااسٹیٹ ہے۔ اس گاؤں کی کل آبادی 1784 ہے۔یہ گائوں بلاک سے تقریباً 22 کلومیٹر اور ضلع ہیڈکوارٹر باگیشور سے تقریباً 48 کلومیٹر دور ہے۔ گاؤں میں زیادہ تر اعلیٰ ذاتوں کی آبادی ہے اور اس کی شرح خواندگی تقریباً 50 فیصد ہے۔ اس کے باوجود گاؤں کی زیادہ تر لڑکیوں کی شادی 12ویں کے بعد ہو جاتی ہے۔ تاہم، جہاں گاؤں کی خواتین لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے کی بات کرتی ہیں، وہیں معاشرہ بارہویں کے بعد ان کی شادی کی بات کرتا ہے۔ اس حوالے سے گیارہویں جماعت میں پڑھنے والی نوعمر لڑکی کویتا بشٹ کا کہنا ہے کہ آج ہر لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر زندگی میں کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری مائیں جو ان پڑھ ہیں اپنے مستقبل کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔ وہ خود کو کسی کے سامنے اظہار کرنا بھی نہیں جانتی ہیں۔ وہ کسی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار بھی نہیں کر پاتی ہیں۔ ہمارے ارد گرد بہت سی ایسی خواتین ہیں جو دستخط کرنا بھی نہیں جانتیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر لڑکی کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔ یہ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی مفید ہے۔ اگر شادی کے بعد ہماری زندگی میں کچھ غلط ہو جائے تو اس تعلیم کی مدد سے ہم اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہیں۔ وہ نوکری کر کے اپنی زندگی گزار سکتی ہیں۔ ہمیں کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ایک اور نوعمر پوجا گوسوامی کہتی ہیں کہ ہم لڑکیوں کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زندگی تاریک ہے۔ اگر ہم پڑھے لکھے ہوں گے تو ہم اپنے بارے میں کسی حد تک باشعور ہوں گے۔ علم نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح آنکھوں کے بغیر ہماری زندگی میں روشنی نہیں، اسی طرح تعلیم کے بغیر ہماری زندگی بے معنی ہے۔ گاؤں کی 40 سالہ خاتون کھشٹی دیوی کہتی ہیں کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہیں تو وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتی ہیں۔ وہ باشعور اور بااختیار بن سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے دور میں لڑکیوں کی تعلیم کے بہت کم آپشن تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں پانچویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکی۔ لیکن آج حکومت لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دے رہی ہے، اس لیے لڑکیوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور بہت زیادہ پڑھنا چاہیے۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ معاشرہ کیا کہتا ہے اور کیا سوچتا ہے؟ پڑھ کر مضبوط اور بااختیاربننے کی ضرورت ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میری دونوں بیٹیاں اچھی تعلیم یافتہ ہوں۔ وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں اور ایک کامیاب انسان بنیں۔ وہ میری طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے تڑپ نہ رکھیں۔ وہ صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھیں اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ سب کچھ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اس سلسلے میں 36 سالہ نوجوان گاؤں کی گرام پردھان سشیلا دیوی اپنے گاؤں جوڈااسٹیٹ میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ پر مسلسل زور دے رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے اور آج کے دور میں بہت فرق ہے۔ آئین میں سب کو برابری کا حق دیا گیا ہے۔ لوگوں کی سوچ بھی بدل گئی ہے۔ اب دیہات میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔ آج گاؤں کی لڑکیاں 12ویں جماعت تک پڑھتی ہیں لیکن ان کے لیے مزید تعلیم ابھی بھی مشکل ہے۔ جس کے لیے بیداری پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی حد تک گائوں میںمعاشی طور پر خوشحال گھرانوں نے لڑکیوں کو بارہویں سے آگے پڑھانا شروع کر دیا ہے لیکن اکثر خاندان بارہویں کے بعد لڑکیوں کی شادیاں کر رہے ہیں جس کو ختم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی مختلف اسکیمیں اس سمت میں اہم ثابت ہورہی ہیں، لیکن سماج کو اس میں بڑا رول ادا کرنا ہوگا۔ جب تک گھر کے مرد لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور انہیں اسکول جانے کے لئے حوصلہ نہیں دینگے اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں ہے۔(چرخہ فیچرس)
رابطہ۔گڑوڑ، اتراکھنڈ،انڈیا

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
سیاحت کی بحالی کیلئے حوصلہ افزا قدم، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے 8ججزکا کشمیر دورہ
تازہ ترین
بارہمولہ میں دو منشیات فروش گرفتار، ہیروئن جیسا مادہ برآمد
تازہ ترین
حج 1446ھ کے دوران پانچ ہزار سے زائد طبی رضاکاروں نے خدمات انجام دیں:سعودی وزارتِ صحت
بین الاقوامی
یمن : عید الاضحیٰ کی نماز کے فوراً بعد اندھا دھند فائرنگ ،12 افراد جاں بحق
برصغیر

Related

گوشہ خواتین

! تلاشِ وجودکا پہلا قدم خود کا محاسبہ فکر و فہم

June 4, 2025
گوشہ خواتین

رشتے نبھانے کی بنیادی شرط صبر و برداشت غور طلب

June 4, 2025
گوشہ خواتین

آٹیزم سپکٹرم ڈس آرڈر :اسباب، علامات اور علاج فکرو ادراک

June 4, 2025
گوشہ خواتین

عورت کا عزت و احترام ،گھر کے لئے سکون و آرام گھر گرہستی

June 4, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?