ریحانہ شجرؔ
میں اس دن گھر کی طرف روانہ ہو رہی تھی۔ جہلم کے دوسرے پل کے دونوں کناروں پر کئی مندر، مسجدیں اور خانقاہیں آباد تھیں، جن کو دیکھ کر نہ صرف سکون کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی بلکہ ان کی نزاکت ہر رہگزر کو اپنی اور کھینچ لیتی تھی۔ پل کے آر اور پار بہت ساری تنگ گلیوں کا طویل سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ ہمارا گھر بھی پل کے اُس پار ان ہی گلیوں میں پڑتا تھا۔ دائیں بائیں کہیں پر رہائشی مکان ایک دوسرے کے اتنے نزدیک کہ اگر ایک گھر میں کانچ ٹوٹ جاتا دوسرے گھر میں اس کی کھنک سنائی دیتی۔ تھوڑے فاصلے پر کئی ایسے گھر اور باغیچے بھی نظر آتے تھے۔ جن میں کہیں مرغ مرغیوں کڑکڑاتے تو کہیں بکریوں کے ممیانے کی آوازیں سنائی دیتیں۔ غریب ، امیر، اقلیتی اور اکثریتی ہر طبقے کے لوگ ایک ساتھ رہتے تھے۔ نہ کسی غریب کو حسد تھا اور نہ ہی کسی امیر کو غرور۔ ہر ایک اپنی دنیا میں خوش تھا۔
ہم سہیلیاں ایک ساتھ یونیورسٹی جاتیں تھیں۔ میری امی ہمیں اکثر ایک ساتھ نکلنے سے منع کرتی۔ کیونکہ اس کو ہمیشہ بُری نظر کا خوف سا رہتا تھا۔ پر ہم کب سننے والوں میں سے تھیں۔ ہم اپنی ان سکون بھری گلیوں کی خوبصورت تتلیاں پھر سے اڑ جایا کرتیں تھیں۔
یہ شہر ، محلہ، گلیاں یہاں تک کہ بازار اپنے لگتے تھے۔ اس بازار کے سارے دکاندار اپنے محلے کے تھے۔ کریانے کی دکان والے غفور چاچا، بچوں کے کھلونے والے عمہ کاک کی دکان، کاکا سمسار چند کی دوائی کی دکان اور دودھ بیچنے والی دیو ماسہ اور روٹی والی موغل ماسہ سب کے سب اپنے تھے ۔
پر افسوس موسم کہاں کہیں ایک جیسے رہتے ہیں۔
اچانک ہوا ایسی چلی سب کچھ تہس نہس ہوگیا۔
رازدان گلی جو پہلے زندگی کے جلوئوں سے مالامال تھی وقت نے اسے موت کی آغوش میں گہری نیند سُلا دیا تھا۔
آج اُدھر پہنچ کر میں نے دور سے کئی غیر روایتی وردی میں ملبوس چاک و چوبند بندے کھڑے تھے جن کے بارے میں سنا تو تھا پر آج پہلی بار دیکھ کے خوف محسوس ہوگیا ۔ دھات کی ٹوپیاں پہنے ، ٹوپیوں کے نیچے کالے رنگ کے اسکارف اس طرز سے باندھ دیئے تھے کہ دیکھنے والے پر ہیبت طاری ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ وردی پوش دیکھ کر میرے قدم خود بہ خود آہستہ اٹھنے لگے۔
میں واپس پلٹنے ہی والی تھی کہ میری نظر اپنی قریبی دوست رجنی پر پڑی۔ وہی چھوٹا قد، سرخ و سفید گول چہرہ، نیلی آنکھیں۔آج بھی پاؤں میں پائل، نیلے رنگ کا شلوار قمیض پہنے اور سر پر نیلے رنگ کی چنی اوڑ ھ کر مانو کسی سورگ کی اپسرا لگ رہی تھی۔
مجھے لگا یہ کوئی خواب ہے لیکن جب وہ مسکرائی اور ہاتھ ہلاکر میرے قریب آگئی تو یوں لگا میرے مردہ جسم میں کسی نے روح پھونک دی ہو۔ میری طبیعت بہل گئی۔ وہ دور سے باہیں پھیلا کر آئی اور میں تیز قدموں سے اس کی اور لپکی اور اسے گلے لگایا۔
میں نے رجنی سے کہا دیکھو رجو یہ گھر، محلہ یہ گلیاں تم لوگوں کے بنا کتنے سونے اور ویران پڑے ہیں۔ اس کی نیلی آنکھوں میں مورتی تیرنے لگے لیکن ضبط سے کام لے کر کہنے لگی، شیریں! کیا سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہوسکتا ؟
ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسوں آگئے۔ کچھ کہہ سن کر⁰ دل کا بوجھ مزید ہلکا کرتے قریب کھڑے وردی والے نے رجنی کو بات ختم کرنے کا اشارہ کیا ۔
میں نے رجنی کو گھر چلنے پر بہت اسرار کیا۔
اس نے کہا ، اگر موقع ملا تو ضرور آوں گی لیکن مجھے اس وقت گھر سے اپنا ستار اور ہارمونیم لینا ہے۔ اس کے بغیر مجھے اپنا آپ ادھورا سا لگتا ہے۔
موسیقی کے آلات کا نام سن کر یاد آیا کہ اس کی آواز میں کیا جادو تھا۔ وہ موسیقی اپنے دادا جی سے سیکھا کرتی تھی۔ اور ناچنے میں بھی کمال تھی، رجنی اپنی پھوپھی یمبرزل سے کتھک سیکھ لیا کرتی تھی۔
میں آج ہی واپس جارہی ہوں، رجنی نے میرے گال پر تھپکی لگاتے ہوئے کہا۔
میں چونک گئی۔
جس دہشت سے یہاں لوگوں کی نیند اڑ چکی تھی وہ مد نظر رکھ کر میں نے رجنی سے پوچھا تم اکیلی ان لوگوں کے ساتھ۔۔۔۔! بھائی جی کو ساتھ لے کے آتی۔
او شیریں تم کو نہیں پتہ یہ لوگ کتنے زمہ دار ہیں، رجنی بے تکلف ہو کے بولی۔
میرے ساتھ نرملا ماسی کی فیملی ہے، ان کو بھی کچھ سامان لینا تھا۔ سڑک کے پار والے محلے میں ان کا گھر ہے، گھبرانے کی ضرورت نہیں کہتے ہوئے رجنی میری اور دیکھ کر مسکرائی ۔
مجھے کچھ ٹھیک تو نہیں لگ رہا تھا لیکن جب رجنی کو مطمئن دیکھا میں نے بھی اطمینان کی سانس لی۔
تم جلدی کرو میں گھر پر تمہارا انتظار کر رہی ہوں، ڈھیر ساری باتیں کرنی ہیں، میں نے اضطراب۔۔ سے کہا اور گھر کی اور بڑھنے لگی۔
رجنی وادی چھوڑنے کے بعد پہلی بار یہاں آئی تھی۔
ان کے چلے جانے کے بعد ہم لڑکیوں کو گھر والوں نے گلیوں کوچوں سے آنے جانے سے منع کیا گیا تھا کیونکہ گلیوں کے یہ خالی مکان کسی ویرانے کی جیتی جاگتی تصویر بن چکے تھے، ادھر سے دن کے اجالے میں بھی چلنے سے ڈر لگ رہا تھا۔ مختلف باتیں سننے کو ملتی تھیں۔ کوئی کہتا ان گلیوں میں وردی پوش گشت کرتے رہتے ہیں تو کو کوئی کہتا تھا کہ یہاں رات کو ہیولے نظر آتے ہیں۔ لیکن میں اور کہکشاں پھر بھی کبھی کبھار ان گلیوں سے آتی جاتی تھیں کیونکہ یہ گھر دیکھ ہمیں رجنی کے پاس ہونے کا گمان ہوتا تھا۔
چلتے چلتے مجھے رجنی کے پاپا کے چھوٹے بھائی صاحب موہن چاچا کے بوسیدہ مکان پر نظر پڑی جس کی ایک دیوار اس سال کی برفباری کی وجہ سے گر گئی تھی جس کی وجہ سے عمارت کی اندر والی دیوار پر گہرے رنگوں سے ماں کالی کی بنائی ہوئی تصویر نمایاں طور نظر آتی تھی۔ یہ تصویر موہن چاچا نے خود بنائی تھی وہ رنگوں کے جادوگر جو ٹھہرے۔ یہ خوبصورت فن پارہ بھی اسی کی تخلیق کا نمونہ تھا۔ تصویر میں دیوی ماں کے کئی ہاتھ تھے ، ایک ہاتھ میں آدمی کا سر دوسرے ہاتھ میں کٹار ، آنکھوں میں آگ دھک رہی تھی اور زبان منہ سے باہر خون میں لت پت ۔ یوں لگتا تھا کہ دیوی سراپا احتجاج اور شکتی کا حتمی مظہر بن کر ظالموں کا سروناش کرنے کے لئے تیار ہو کر کھڑی تھی۔
ان خالی مکانوں کو تکتے ہوئے میں گھر پہنچ گئی۔ رجنی کے آنے کی خوشی مجھ پر اسقدر حاوی ہو گئی تھی کہ سلام و دعا کرنے سے پہلے میں نے امی کو بتایا کہ رجنی آئی ہوئی ہے کچھ ضروری سامان لینے کیلئے اور وہ ابھی یہاں آئے گی ۔ امی سن کر بہت خوش ہو گئی اور رجنی کی پسند کا زعفرانی قہوہ تیار کرنے لگی ۔
جن دنوں حالات اچھے تھے ہم چاروں سہیلیاں ایک ساتھ پڑھائی کرتیں ۔ کبھی رجنی کے گھر کبھی میرے گھر میں پڑھنا اچھا لگتا تھا۔ رجنی کی امی ہمیں پڑھائی میں مدد کرتی تھی۔ اور میری امی اچھے پکوان تیار کرتی تھی۔ کہکشاں کے گھر جانا چھوڑ دیا تھا کیونکہ اس کی دادی کھڑوس تھی۔ نماز پڑھتے ہوئے ایک بار میں غزلی اور رجنی غلطی سے اس کے سامنے سے گزر گئیں ، اس نے نماز آدھی چھوڑ کر پہلے ہمیں چار صلواتیں سنائیں اور تب جا کے سکون سے بیٹھ گئی ۔ ہم مایوس ہوکر گھر لوٹیں۔
جب سے رجنی ہجرت کرکے دوسری طرف چلی گئی اور غزلی کی سڑک حادثے میں موت ہوگئ تب سے ہم دو ہی رہ گئیں ، میں اور کہکشاں۔
ایسے میں کہکشاں آئی اور آتے ہی میں نے اس کو رجنی کے آنے کی خبر سنا دی، سن کر اس کی باچھیں کھلنے لگی۔
کافی دیر تک رجنی کا انتظار کیا۔ لیکن وہ نہیں آئی۔
امی نے کہا شاید اس کو وقت نہیں ملا ہوگا۔
کہکشاں نے تعجب سے میری طرف دیکھ کر کہا ، تم نے واقعی رجنی کو ہی دیکھا تھا ؟
میں نے غصے سے کہا ہاں! ہاں اس نے کہا تھا وہ ضرور آئے گی اگر وقت ملا تو ۔
امی اور کہکشاں وثوق سے کہہ رہیں تھیں کہ رجنی کو ان حالات میں یہاں آنا مناسب نہیں لگا ہوگا۔
رجنی کے لیئے ہماری بےچینی بڑھ رہی تھی پر رجنی نہیں آئی۔ حالات سازگار نہیں تھے کسی سے اس بات کا تذکرہ کرنا بھی جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔
دو دن بعد میں اور کہکشاں رازدان گلی سے گزرے۔دور سے ہم رجنی کے گھر کی طرف بار بار دیکھ رہیں تھیں۔ وہ اوپر والی منزل میں رہتے تھے۔ مجھے یاد آیا اور پرانی یادوں کو تازہ کر کے کہکشاں سے مخاطب ہوکر کہا، تم کو یاد ہے کہکشاں جب ہم کالج کےلئے نکلتیں اور رجنی اکثر کچھ نہ کچھ بھول جاتی تھی ۔ وہ اماں کو آواز لگاتی تو اس کی اماں رسی والی ٹوکری میں کبھی رومال تو کبھی کچھ تیسری منزل کی کھڑکی سے نیچے ڈال دیتی تھی۔ جب سبزی فروش سبزی لے کر یہاں سے گزرتا تھا رجنی کی اماں اکثر سبزی خرید کراسی رسی والی ٹوکری کے ذریعے اوپر کھینچ لیا کرتی تھی۔
جوں جوں ہم نزدیک پہنچنے لگے، کہکشاں نے اچانک میرا ہاتھ پکڑ لیا اور گلے میں اٹکی ہوئی آواز میں کہا یادوں کو چھوڑ ، اوپر اس مکان کی طرف دیکھو وہاں کچھ لٹکا ہوا ہے۔
میں نے پہلے کہکشاں کی طرف اور بعد میں آہستہ آہستہ اوپر کی اور دیکھا جہاں رجنی رہتی تھی وہاں کچھ لٹکا ہوا تھا لیکن مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا، کچھ لٹکا ہوا دیکھا، میری زبان جیسے گلے میں اٹک گئی اور ٹوٹے لفظوں میں کہا۔ کوئی جسم لٹکا ہوا، پر کس کا ؟ اتنے لمبے بال۔۔۔۔۔۔! تو رجنی کے ۔۔۔۔۔۔۔ تھے۔
میں تھر تھر کانپ رہی تھی اور دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
ہم دونوں آہستہ آہستہ نزدیک رجنی کے گھر کی جانب گئیں۔ میرا کلیجہ منہ کو آگیا جب میں رجنی کی پازیب اور نیلے رنگ چنی زمین پر پڑی مٹی میں ملیامیٹ دیکھی۔
���
وزیر باغ، سرینگر ، [email protected]