طارق شبنم
رات کے سناٹے لمحہ بہ لمحہ گہرے ہوتے جا رہے تھے ۔ موسم انتہائی خوشگوار تھا ،سسکیاں بھرتے ہوئے ہوا کے لطیف جھونکے ،نیلے آسمان پر تاروں کے جگمگاتے ہوئے ہیرے جواہرات اور چاند کی نرم و سبک روشنی ماحول کو اور زیادہ دلکش بنا رہے تھے ۔شہر کے مکین سکون سے نیند کی میٹھی بانہوں میں جھول رہے تھے لیکن اپنے آس پاس سے بے نیاز گہری اُداسی میں ڈوبی نصرت گھر کے دالان پر بیٹھی بے قرار نظروں سے اپنے لاڈلے بیٹے اقبال کی راہ تک رہی تھی جو صبح موٹر بائیک پر سوار ہو کر کوچنگ سنٹر کے لئے روانہ ہوا تھا لیکن ابھی تک واپس نہیں لوٹاتھا ۔ یوں تواس کا دیر سے گھر لوٹنا کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن آج تو حد ہی ہوگئی ۔جب رات کے گیارہ بجے تک بھی وہ نہیں آیا تو نصرت کی فکر و تشویش بڑھنے لگی ۔شہر کے حالات بھی کچھ ٹھیک نہیں تھے ۔آئے روز رونما ہونے والے پر تشدد واقعات سے شہر باسیوں کی زندگیاںاجیرن بن چکی تھیں ۔حالات کب اور کیا رخ اختیار کرینگے کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔ایک اور تشویشناک پہلو شہر میں رونما ہونے والے خوفناک خونین سڑک حادثات تھے، جن میں ہر روز پلک جھپکتے ہی کئی کئی انسانی جانیں ضایع ہو جاتی تھیں اور کئی زخم زخم ہو کر اسپتال پہنچتے تھے ۔نصرت کے دل میں طرح طرح کے خوفناک وسوسے اور اندیشے جنم لے رہے تھے ۔اقبال کا والد ایڈوکیٹ جہانگیر حسب معمول اپنی مصروفیات سے فارغ ہو کر سوگیا تھا کیوں کی اس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا اکلوتا بیٹا گھر نہیں لوٹا ہے ،نہ نصرت اس کو بتانا چاہتی تھی ۔وہ ممتا کی ماری روز کی طرح آج بھی اپنے لاڈلے کی پردہ پوشی کرنا چاہتی تھی ۔اس نے ٹیلیفون کرکے اپنے رشتہ داروں ،اقبال کے دوستوں سمیت تمام ممکنہ جگہوں پر دریافت کیا لیکن کہیں سے بھی کوئی پتہ نہیں ملا جب کہ خلاف معمول اقبال کا فون بھی بند آرہا تھا ۔نصرت بہت دیر تک سخت پریشانی و مخمصے کی حالت میں اپنے نور نظر کی راہ تکتی رہی،لیکن جب گھڑی کی سوئیاںبارہ کے ہندسے کو پار کرگئیںاور رات کی خاموشی گہراگئی تو اس کی امیدیں بھی کچے ناریل کی طرح پاش پاش ہونے لگیں،جسم کے پور پور سے درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔وہ جھنجھلاہٹ و اضطراب کی حالت میں خواب گاہ میں داخل ہوگئی اور جہانگیر کو جگا کر گناہوں کی پوٹلی کی طرح دل میں چھپائی صورتحال سے با خبر کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔یہ پریشان کن خبر سن کر اس کو پہلے سخت غصہ آیالیکن جلد ہی پدرانہ شفقت غالب آگئی ، افسردگی اور بے اطمینانی کے نقوش چہرے پر نمایاں ہونے کے با وجود وہ حوصلہ مند لہجے میں نصرت سے یوں گویا ہوا ۔
’’ تم گھبرائو نہیں ،اقبال اب چھوٹا بچہ نہیں ہے ۔کسی دوست کے گھر ہوگا ،صبح لوٹ کر آئے گا‘‘ ۔
نصرت کے رونے کی آوازیں سن کر ان کا گھریلو ملازم رزاق چا چا بھی آیا اور اس کی ڈھارس بندھاتے ہوئے سونے کے لئے کہا ۔ لیکن نصرت آخر ماں تھی،اپنے لاڈلے کو کھانا کھلائے بغیر کیسے سو پاتی ۔بیٹے کی د وری کا غم کالی ناگنوں کی طرح بل کھا کھا کر اسے اپنی لپیٹ میں جکڑ رہا تھا جب کہ جہانگیر بھی سکتے میں آکر سخت کرب و اضطراب میں مبتلا ہو گیا ۔
اقبال نہایت ہی ذہین ،با اخلاق اور محنتی لڑکا تھا ۔پڑھائی بھی خوب دل لگا کر کرتا تھا ۔ہر سال اچھے مارکس لے کر پاس ہوتا تھا ۔والدین اور اساتذہ کا فرمانبردار بھی تھا جو بڑے نازوں سے اس کی پرورش کرتے تھے ۔ہر سہولیت میسر رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی حرکات و سکنات پر بھی نظر رکھتے تھے ۔ان کی خوشیوں کا اسوقت کوئی ٹھکانہ نہیں رہا اور سر فخر سے اونچا ہو گیا جب اقبال نے بارہویں جماعت کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کر لیا ۔رشتہ دار و احباب ڈھیر سارے تحائف لے کر ان کے گھر مبارک بادی دینے کے لئے آئے ۔بیٹے کی اس شاندار کامیابی پر فرط مسرت و امبساط میں جھومتے ہوئے نصرت نے ایک قیمتی مو بائیل فون سمیت کئی قیمتی تحائف خرید کر اپنے لاڈلے کو عنایت کئے اور آنکھیں بند کر کے اس کی ہر مانگ پوری کرناشروع کردی ۔نصرت کی یہ روش دیکھ کر رزاق چا چا نے صدق دلی سے اس کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ۔
’’بی بی جی ۔۔۔۔۔۔ چھوٹا مُنہ بڑی بات ۔۔۔۔۔۔ اس عمر میں بچے کو اتنی آزادی دینا ٹھیک نہیں ہے ۔کہیں اس کی عادات بگڑ نہ جائیں ‘‘۔
’’رزاق چا چا ۔۔۔۔۔۔ اقبال اب بچہ نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔ امتحان میں شاندار کامیابی اس کی زندگی کا خوشگوار موڑ یعنی ٹرننگ پوائینٹ ہے‘‘ ۔
اپنے لاڈلے کی کامیابی پر شاداںو فرحاںنصرت ،جس کے جیسے بخت جاگ اٹھے تھے ،نے پُر جوش لہجے میںاس کی چٹکی لیتے ہوئے کہا ۔غرض اس نے بیٹے کو اور زیادہ لاڈ پیار اور چاندی میں پالنا شروع کر دیا ۔
وقت تیزی سے اپنا سفر طے کرتا رہا۔کالج میں داخلہ حاصل کرنے کے بعد اقبال کے عادات و اطوار میں دھیرے دھیرے بدلائو آنا شروع ہو گیا ۔مختصر وقفے میں جیسے اس کی زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی ۔اس نے پڑھائی کی طرف دھیان دینا ہی چھوڑ دیا ۔زیادہ تر وقت موبائیل فون ،ٹیلیویژن اور دیگر خرافات میں صرف کرنے لگا۔ دن میں بھی اور رات گئے تک فون پر گفتگو کرنا ،انٹرنیٹ پر وقت گزارنا اس کا محبوب مشغلہ بن گیا ۔اس کے برتائو میں چڑ چڑا پن ،من مانی اور والدین کے تئیں بے رخی پیدا ہونے لگی ،لیکن انہوںنے اس کی ان عادات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا بلکہ اس کی ہر جائیز نا جائیز ومانگ پوری کرتے رہے۔ والدین کے اس بے جا لاڑ پیار کا نا جائیز فائیدہ اٹھا کر اقبال نے اچانک ان سے موٹر بائیک کی فرمائش کر ڈالی ۔انہوں نے پیار سے سمجھاتے ہوئے یہ فرمائش پوری کرنے سے منع کر دیا لیکن مرغ کی ایک ٹانگ کے مصداق اس نے اپنی خواہش پر اڑے رہتے ہوئے ان پر مختلف بے ہودہ طریقوں سے دبائو ڈالنا شروع کر دیا ۔اقبال کوئی غلط قدم نہ اٹھائے اس ڈر سے ممتا کی ماری نصرت بھی اس کی حمایت میں آگئی ۔ماں بیٹے کی ضد کے آگے جہانگیر ،جس کے پاس ایک اچھے عہدے پر فائیز ہونے کے سبب روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی ،نے ہاتھ کھڑے کرکے بیٹے کی یہ ضد بھی پوری کرلی ۔ اب اقبال کا لائف سٹائیل پوری طرح تبدیل ہو گیا ۔صبح بن ٹھن کر موٹر بائیک پر کالج کے لئے نکلنا ،شام کو دیر سے گھر لوٹنا ۔اوپر سے اچھی خاصی رقم مختلف بہانوں سے ماں سے اینٹھنا اس کا معمول بن گیا ۔کئی دفعہ اس نے ماں کی الماری میں رکھی رقم پر بھی ہاتھ صاف کردیا جب کہ رزاق چا چا نے کئی بار اشاروں کنایوں میں اس کے والدین تک یہ بات پہنچائی کہ اقبال نے کئی لوفر لفنگوں سے یارانہ گانٹھ لیا ہے ۔غرض اس کی حرکات سکنات اور چال ڈھال سے آوارگی کی بو آرہی تھی ،لیکن والدین پیار کے مارے کچھ نہیں بولتے تھے ۔اس کی پڑھائی کا یہ حال ہوا کہ گریجویشن کے پہلے ہی سال میں فیل ہو گیا جس کے بعد اگر چہ کالج کے دروازے اس کے لئے بند ہوگئے لیکن کوچنگ مراکز جانے کے بہانے اس کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ من مانے طریقے سے اپنی زندگی جیتا رہا ۔
وہ کہاں جاتا ہے؟۔۔۔ کیا کرتا ہے؟ ۔۔۔کن لوگوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے ؟والدین کو اس بارے میںکچھ بھی معلوم نہیں تھا نہ انہوں نے کبھی جاننے کی کوشش کی ۔ہمیشہ اس کی غلطیوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے ۔۔کچھ مہینوں سے اقبال کی صحت بھی گرنے لگی تھی ۔اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑنے لگا ۔۔۔ آنکھیں سرخ اور اندر کو دھنسی ہوئی اور جسم اتنا نخیف ہو چکا تھا جیسے اس کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو ۔اس کی یہ حالت دیکھ کر کئی دفعہ والدین نے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی صحت کی گرتی حالت سے بھی بے نیاز اپنی ہی دھن میں مست ان کی بات کو نظر انداز کرتا رہا ۔والدین اب اس کی ہر دم بگڑ تی صحت اور طفلانہ حرکتوں سے سخت پریشان رہنے لگے تھے ،لیکن پوری طرح سے بے بس تھے ۔
نصرت رات بھر لاڈلے بیٹے کی دوری کے غم میں پریشان سوچوں کی بھول بھلیوں میں پھنس کر ریت پر پڑی مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر آنسوں بہاتی رہی اور صبح صادق کے وقت عالم یاس و اضطراب میںاللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہوکر بیٹے کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہوئے گڑ گڑانے لگی ۔اس دوران دفعتاً اس کے فون کی گھنٹی بجھی ۔فون کے ڈسپلے پر نظر پڑتے ہی وہ خوشی سے اچھل پڑی جس پر اقبال کا نام رقص کر رہا تھا ۔
’’ہیلو ۔۔۔۔۔۔ بیٹا کہاں ہو تم ؟‘‘
اس کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا ۔
’’ ہیلو ۔۔۔۔۔۔ آپ اقبال کی ماں ہو ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میرا اقبال کہاں ہے ؟۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا اس کو ۔۔۔۔؟‘‘
دوسری طرف سے کوئی اجنبی آواز سنتے ہی اس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا اور اس نے چلانا شروع کر دیا ۔
میں ڈاکٹر شفیق بول رہا ہوں ،آپ اطمینان رکھیے ۔آپ کا بیٹا بالکل ٹھیک ہے ،اُسے کچھ نہیں ہوا ہے ۔آپ سٹی ہاسپٹل آکر مجھ سے ملئے۔
جب وہ اسپتال پہنچے تو اقبال ،جس کے سر اور جسم کے دوسرے حصوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں ،چار پائی پر پڑا نیم بے ہوشی کی حالت میں درد سے کراہ رہا تھا ۔اس کی یہ حالت دیکھ کر نصرت ماہی بے آب کی طرح تڑپ کر اپنے بال نوچنے لگی ۔
گھبرائے نہیں یہ معمولی نویت کے زخم ہیں جو چند دنوں میں ٹھیک ہو جائینگے لیکن ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’لیکن کیا؟ ڈاکٹر صاحب ‘‘۔
جہانگیر نے حیرت زدہ نظروں سے ڈاکٹر کو تکتے ہوئے پوچھا ۔
’’ در اصل آپ کا بیٹا ایک نہایت ہی پیچیدہ مرض میں مبتلا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے علاج سے زیادہ پرہیز ،پیار اور احتیاط کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔‘‘۔۔
ڈاکٹر نے انہیں تٖفصیل کے ساتھ اقبال کو لا حق مرض ،ضروری احتیاط اور علاج کے بارے میں بتایا ۔یہ تکلیف دہ بات سن کر کہ اقبال جان لیوا نشیلی ادویات ،اور شراب نوشی کی لت میں مبتلاء ہے اور کل شام زیادہ مقدار میں نشیلی ادویات لینے کے سبب ہی وہ بائیک سے گر کر بے ہوشی کی حالت میں سڑک پر پڑا تھا ،جہاں سے چند نیک دل راہ گیروں نے اسپتال پہنچا کر اس کی جان بچائی،اُن کے عقل کے طوطے اڑ گئے اور پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہو اقبال بیٹا بالکل ٹھیک ہو جانا چاہیے ‘‘۔
رزاق چا چا نے درد میں ڈوبے لیجئے میں ہاتھ جوڑ کر التجا کے انداز میں کہا۔
’’ لا پرواہی کے سبب اس کی صحت بہت حد تک بگڑ چکی ہے ۔اب اس بُری لت سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنا ہی اس کے لئے ٹرننگ پوائینٹ بن سکتا ہے ورنہ۔۔۔۔۔‘‘
ڈاکٹر نے نسخہ نصرت کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔وہ کچھ پل پچھتاوے والی نظروں سے رزاق چا چا کی طرف دیکھتی رہی جس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں کی طغیانی تیز ہو گئی ۔
٭٭٭
اجس بانڈی پورہ 193502 کشمیر
ای میل؛[email protected]