ملک اعجاز
محسن جونہی دن بھر کے کام سے تھکا ہارا جب گھر پہنچا تو اداسیوں کے بادل اُس کے پورے وجود پہ اِس قدر چھا چُکے تھے کہ کسی بھی پل دل کے نہاں خانوں میں بجلیاں کڑکنے کا ڈر بھی تھا اور آنکھوں سے ساون برسنے کا پورا اندیشہ بھی۔ سائمہ کی جدائی سے محسن کا وجود خستہ تھا اور زندگی کے گھر آنگن میں اب کانٹے ہی کانٹے اُگ آئے تھے۔
یہ انسان بھی کیا عجیب مخلوق ہے کہ اگر اپنے اندر انسانیت اور انصاف کو پروان چڑھائے تو فرشتوں سے افضل بن جاتا ہے اور اگر اپنے وجود کے اندر شیطانیت کی پرورش کرے تو درندوں سے بدتر ہوجاتا ہے۔ سائمہ بھی ایسے ہی ایک انسان نُما درندے کی درندگی کی بھینٹ چڑھ چُکی تھی۔
سائمہ کو بڑے دردناک طریقے سے قتل کیا گیا تھا۔ جسم کا ایک ایک انگ جدا کیا گیا تھا۔ محسن کی پتھرائی آنکھوں کے سامنے جس پل سائمہ کی ٹکڑوں میں بٹی لاش آتی تھی تو وہ گُھٹ گُھٹ کے اپنے کمرے میں روتا رہا اور آج بھی یہی حال تھا۔ نماز کے بعد کچھ کھائے بغیر وہ اپنے بستر میں چلا گیا اور نمناک آنکھیں لئے اپنی منگیتر، اپنی محبت کی یادوں میں ایسے کھوگیا کہ روح خوابوں کی الگ دنیا میں پہنچ گئی جہاں سائمہ لہو سے تر بہ تر چادر اوڈھے اور گیلی سُرخ آنکھیں لئے ایک عجیب سی دھند کے بیچ کھڑی محسن کو غمزدہ آنکھوں سے اپنے پاس آنے کو کہہ رہی تھی۔ محسن جونہی سائمہ کے قریب پہنچا تو اُس کا لہو میں ڈوبا سراپا دیکھ کے خاک پہ گِر پڑا
“محسن۔۔۔۔۔۔ تمہیں پتہ ہے تمہاری سائمہ کو کس بیدردی سے مارا گیا۔۔۔۔!!! محسن میں نے اُس دن صبح گھر سے جاب پہ نکلتے وقت اماں کو مچھلیاں لاکے پکانے کا وعدہ کیا تھا مگر انسان نُما درندوں نے مجھے سراب دے کے میرے سر پہ پیچھے سے کسی بھاری لوہے سےاِسقدر پے در پے شدید وار کئے کہ میرے سر کا سارا خون میرے چہرے اور گلے سے گِر گِر کے بہنے لگا، میرے دونوں ہاتھوں میں میرے ہی خون کی مہندی لگائی گئی اور میں زمین پہ گِر گئی۔۔۔۔۔۔۔ محسن۔۔۔۔۔۔ محسن۔۔۔۔۔۔۔مجھے بہت درد ہوا اُس وقت اور میں نے اماں کو، بابا کو بھیا کو اور تمہیں آواز دی مگر کوئی بھی نہ آیا۔
اِتنا ہی نہی ہوا محسن، میں تو مرچکی تھی اور میری روح وہیں پہ کھڑی تھی مگر درندوں نے میرے جسم سے وہ بازو کاٹ دئے جِن پہ میری اماں کو ناز تھا اور جنہیں وہ اکثر چُوما کرتی تھی۔ اُس کے بعد ایک ایک کرکے میری اُن ٹانگوں کو کاٹا گیا جن سے چلتے ہوئے میں اپنے بوڈھے ماں باپ کے لئے دو وقت کی روٹیاں جُٹاتی تھی۔۔۔۔۔۔ایسا کیا گناہ کیا تھا میں نے محسن کہ مجھے آری سے کاٹا گیا اور میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اُنہیں یہاں وہاں پھینک دیا گیا۔
محسن۔۔۔۔۔!!! انسانوں کی بستی میں ظلم پہ خاموش رہنے والے انسانوں سےجاکے کہنا کہ میرے جسم کا خون ابھی بھی گیلا ہے اور درد سے میری کائنات کراہ رہی ہے۔۔۔۔محسن مجھے انصاف نہ ملا۔۔۔۔۔۔۔!!!! اماں بابا کو میری طرف سے معافی مانگنا اور کہنا کہ میری گیلی انکھوں کے صدقے میں مجھے معاف کرنا کہ میں اُن کے لئے دو وقت کا نوالہ نہیں پہنچا پاؤں گی اب اور بھیا سے کہنا کہ میری یاد میں رات کو اُٹھ اُٹھ کے اتنا نہ رویا کرے۔۔۔۔۔۔محسن میری تمنا تھی کہ تمہارے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں پہ سجاؤں مگر دیکھو تو سہی اِن گِرے پڑے ہاتھوں کی اور۔۔۔۔۔۔!!! درندوں نے میرے نازک ہاتھوں میں خون کی مہندی رچائی…….!!!!” روتے روتے اپنی روئیداد بتاتے ہوئے سائمہ اُس دُھند کے بیچ ہچکیاں لیتی ہوئی محسن کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
خاک پہ پڑے سائمہ کے خون آلود بازؤں کو اپنے سینے سے لگا کے محسن چیخ چیخ کے اِسقدر رویا کہ نیند سے جاگ گیا اور کمرے کے ایک کونے میں چُھپ کے زار زار رونے لگا۔۔۔۔۔۔!!!!! دل سے ‘سائمہ ‘سائمہ کی صدائیں جاری تھیں اور سوکھے لبوں پہ فقط درد انگیز الفاظ۔۔۔۔ “انصاف” “انصاف”۔۔۔۔۔۔!!!!!
���
حسینی کالونی چھترگام ،موبائل نمبر؛9797034008