شبنم بنت رشید
کتنا مان اور بھروسہ ہوتا ہے اولاد کو اپنے ماں باپ پر لیکن میں نے اپنی بیٹی مہک کی زندگی کا ایک اہم فیصلہ تب کردیا جب وہ اپنا خواب پورا کرنے کے بالکل قریب تھی۔ اس کا خواب صرف یہ تھا کہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کرے تاکہ وہ اپنے گھر اور اپنی زندگی کے اندر ایک نیاپن اور بدلاؤ لا سکے۔ وہ یہ بات اکثر کہا کرتی تھی، مگر میں تو تھی ایک سنگ دل اور جلد باز ماں، یہ بات مجھے خود کو معلوم تھی اور میرے جاننے والے بھی یہی کہا کرتے تھے۔ جب بھی مجھے کوئی فیصلہ کرنا ہوتا تھا تو میں یہ بھول جاتی تھی میں خود عورت ذات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی ہوں اور جو سامنے اپنے سر کو جھکائے کھڑی ہے وہ میری اپنی بیٹی میری اپنی اولاد ہے۔
صبا اور ثناء کی نسبت مہک کو مجھ سے کچھ زیادہ ہی لگاؤ تھا۔ اسے مجھ سے بہت محبت تھی، ماں باپ کے ساتھ محبت ہونا تو ایک فطری عمل ہے مگر کبھی کبھار اولاد کی محبت بھی ماں باپ کے بیچ بٹ جاتی ہے مگر مہک تو اپنے باپ کو جانتی تک نہیں تھی۔ مجھے خود بھی معلوم نہ تھا کہ کیوں میرا دل جذبات سے عاری تھا۔ مہک تب میری کوکھ میں پل رہی تھی جب میں بھری جوانی میں بیوہ ہوگئی تھی اور پھر حالات سے لڑ لڑ کر اپنوں پرائیوں کی ٹھوکریں کھا کھا تنگ آ چکی تھی۔ شاید اسی لئے قسمت سے میرا بھروسہ اٹھ چکا تھا۔ اسی لئے ثناء اور صبا کو میں نے کمسنی میں بیاہ دیا تھا۔ مہک چونکہ سب سے چھوٹی تھی اسلئے اسکا گھر میں جیسے کوئی پرسان ہی نہیں تھا۔ بچپن سے ہی وہ اکثر اسکول سے آکر اپنے اسکول کا کام کرکے اشرف صاحب کے گھر ٹی وی دیکھنے جاتی تھی۔ اشرف صاحب اور انکی بیگم کا دل کافی وسیع تھا، اس لئے محلے میں اکثر بچے انکے گھر ٹی وی دیکھنے جاتے تھے۔ مہک وہاں سے آکر اکثر انکے گھر اور بڑے بڑے ہوادار کمروں، رنگین گلدار پردوں، بڑے گیٹ اور انکی سر سبز پارک کی تعریفیں کرتی تھی۔ شاید وہیں سے اسکی آنکھوں کے اندر خواب پلنے لگے تھے۔
اس وقت مہک اپنے کمرے میں کتابیں پھیلائے اپنا کام کرنے میں مصروف تھی، جب میں نے اسے پوچھا “کیا ہوا مہک تم نے تو میرے سوال کا کوئی جواب ہی نہ دیا۔” جب سے اُسے میرے ارادے کا پتہ چلا تھا تب سے ہی اسکی زبان جیسے رہن ہوگئی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد اس وقت وہ پھر اپنی پڑھائی میں مصروف تھی تو میں نے اسے اپنے پاس بلا کر پوچھا ’’کیا سوچا تم نے؟‘‘۔ اپنے سر اور آنکھوں کو جھکائے ہوئے اس نے جواب دیا،”کچھ بھی تو نہیں۔” اسکا اتنا کہنا تھا کہ میرے اندر ایک آگ بڑھک اٹھی اور میں شروع ہوگئی کہ آج کل بغیر جہیز کے اچھا لڑکا گھر اور خاندان ملنا کتنا مشکل ہے۔ میں تمہارے جہیز کے لئے کہاں ڈاکہ ڈالوں۔ منظور احمد تو تمہیں بغیر جہیز کے اپنانے کو تیار ہوا ہے۔ وہ اچھا آدمی میرا مطلب وہ ایک اچھا انسان ہے، اسکا اپنا بھرا بھرا گھر، گاڑی اور سب سے بڑی بات سرکاری ملازم بھی ہے۔ آپ دونوں کی جوڈی خوب جمے گی۔ ساتھ ساتھ ثناء کے بچوں کو بھی ماں کا پیار ملے گا۔ ہمیں بھی تو اپنی حیثیت حالات، اور فرائض کا احساس ہونا چاہیئے۔ بہن ہی تو بہن کے وجود کا ایک حصہ ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کہ تمہاری سب سے بڑی بہن ثناء کی جگہ کوئی اور لے تمہیں یہ رشتہ دل کی خوشی سے قبول کرنا ہوگا۔ اگر یہ رشتہ ہاتھ سے نکل گیا تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ میں نے اسکے ارد گرد کئی چکر ایسے کاٹے جیسے کوئی پولیس والا کسی مجرم سے جرم کا اقرار کروانا چاہ رہا ہو۔
ثناء ایک سال پہلے سنگین بیماری میں مبتلا ہوگئی تھی اور دو مہینے پہلے وہ فوت ہوگئی۔ اسکی موت کا ماتم منانے کے بجائے میں مہک کے پیچھے ہاتھ دھو کر اسی لئے پڑ گئ کیونکہ تب ہی سے میرے ذہن میں یہ کھچڑی پکنے لگی تھی۔ میں نے منظور احمد کو دبے دبے لفظوں ۔میں اقرار کیا تھا مگر مہک کو بھی بتانا ضروری تھا۔
مہک چپ اور خفا خفا سی تھی تو کئی دن کے بعد میں نے اسے کہا کہ کل میرے ساتھ بازار چلنا۔ مگر امی کیوں؟ کیونکہ میں نے منظور احمد کو ہاں کردی ہے،تمہاری شادی کا کچھ ضروری سامان خریدنا ہے ۔ اگلے ہفتے جمعہ کے روز آپ دونوں کا نکاح ہے اور ساتھ میں تمہاری رخصتی بھی ہوگی۔ میں نے اس معصوم کو حکم سنایا اور کمرے سے نکل گئی۔ اُسے کچھ سوچنے، سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا۔
ایک خوبصورت جوڑے، لاکھوں کے زیورات اور گہرے میک اپ کے باوجود اسکا غم اور اداسی اسکی آنکھوں میں عیاں تھے۔ مہک کے رخصت ہوتے ہی شادی میں آئے کچھ اپنے قریبی رشتہ دار مہمانوں نے بھی اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا مگر کافی تھک چکی تھی اور اب ریسٹ کرنا چاہ رہی تھی۔ تھکاوٹ کے عالم میں مہک کے کمرے میں چلی گئی جہاں اسکی کتابیں ابھی بکھری پڑی تھیں۔ میں انہیں سمیٹنے لگی تو ایک موٹی سی کتاب کے اندر اشرف صاحب کے بیٹے مہران کی تصویر پھولوں کی پتیوں کے ساتھ مہک رہی تھی۔ مہران لاکھوں میں ایک تھا لائق فائق، خوبصورت اور مہک کا ہم عمر اور ہم جماعت۔
کچھ کرچیاں سی چبھنے لگیں دل کے آس پاس
سینے میں جیسے چپکے سے کچھ ٹوٹ سا گیا
���
پہلگام ،موبائل نمبر؛9419038028