Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

تحفہ کہانی

Mir Ajaz
Last updated: April 16, 2023 1:13 am
Mir Ajaz
Share
21 Min Read
SHARE

فلک ریاض

“شیلا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ۔۔۔بہت بہت زیادہ ۔میں تمہارے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتا ۔۔”راکیش نیم دراز اس کی کی گود میں سر رکھ کے بول رہا تھا اور وہ اس کی پیاری پیاری باتیں سن کے مسکرا رہی تھی۔وہ اسے چھیڑنے کے لئے اِترا کے بولی”ہاں ہاں جانتی ہوں میں کتنا پیار کرتے ہو تم مجھ سے۔۔ مطلب کا پیار “یہ کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگی تو راکیش سیدھا ہو کے بیٹھ گیا اور شیلا کی چوٹی پکڑ لی ۔۔کیا بول رہی ہو مطلب کا پیار۔۔ ہونہہ۔۔۔ تمہارے لئے میں نے گھر والوں سے لڑائی کی۔تم کو حاصل کرنے کے لئے کیا کیا نہ کرنا پڑا مجھے اور تم کہتی ہو مطلب کا پیار” ۔اس نے بناوٹی روٹھنے کا ناٹک کیا اور دوسری طرف منھ کیا تو شیلا نے اسے اپنی بانہوں میں کس لیا اور آہستہ سے مسکرا کر بولی”۔۔تمہارے گھر والے تو تمہاری شادی تمہاری کزن سے کرنا چاہتے تھے۔۔تمہاری کزن کو وہ سیدھی سادی اور مجھے فیشن اپیل کہتے تھے۔تم کو اسی کزن سے شادی کرنی تھی ۔۔کہہ کر اس نے بانہوں کا گھیرا ڈھیلا کیا۔ تو اب کی بار راکیش نے اس کو بانہوں میں بھر لیا اور پیار کرتے ہوے نرم لہجے میں کہنے لگا” تم تو کالج سے ہی مجھے پسند تھی۔۔پہلی محبت۔۔تم کو کیسے کھوتا۔۔۔پیار کیا ہے جان من۔۔تن۔سے من سے۔۔۔۔اور دھن سے بھی۔۔”
“ہاں دھن کمانے کے لئے مجھ کو یہاں اکیلا چھوڑا” ۔اب کی بار وہ اداس لہجے میں بولی تو راکیش نے لمبی سانس کھینچ لی ۔”دیکھو جان میں تمہارے لیے ہی سات سمندر پار گیا پردیس۔ بہت پیسہ کمانے کے لئے تاکہ تم کو دنیا کی ہر ایک خوشی دے سکوں۔ تم کو یاد ہو گا جب ہم دونوں کی منگنی ہوئی تھی تو میں اِدھر اپنے وطن میں معمولی جاب کرتا تھا اورتم سے ملاقات کے وقت چھوٹا سا گفٹ بھی نہیں لاپا تا تھا۔ حالات میرے خراب تھے اورتم نے بھی کئی بار شکایت کی کہ میں خالی ہاتھ آتا ہوں۔ اب دیکھو چھہ سال سے باہر ہوں اچھا کماتا ہوں ۔تم کو ہر خوشی دے پاتا ہوں۔۔ممی پاپا کی خدمت بھی بہترین طریقے سے کر پا رہا ہوں۔ تم کو جاب کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن جب تم نے بولا کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہوجاتی ہوں تو تم کو جاب کی اجازت بھی دے دی۔ میں بس تین چار سال آسٹریلیا میں اور گزاروں گا اور پھر پلان کے مطابق ادھر ہندوستان میں ہی اپنا کاروبار شروع کروں گا۔ وہ پلیٹ سے بادام کی گری اٹھاتے ہوئے بولا تو شیلا سرد آہ بھرتے ہوے گویا ہوئی۔ ۔۔” لیکن مجھے بچہ چاہیے راکیش۔۔بچہ۔۔”اب کی بار اس کی آنکھوں میں آنسوں تیر رہے تھے تو راکیش نے اسے جلدی سے گلے سے لگا لیا اور قدرے تسلی بھرے لہجے میں کہا”میری جان اتنے سارے ڈاکٹروں سے ہم نے علاج کروایا۔۔۔تم بھی میرے بغیر بہت سارے اسپیشلسٹز کے پاس گئی ہو۔۔۔بھگوان کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔۔۔ہمارا بچہ ہوگا مجھے پورا وشواس ہے۔۔۔” وہ اس کے سر کو ہاتھ سے سہلا رہا تھا تو شیلا نے اس کے سینے کے ساتھ اپنا سر رکھا اور روہانسی انداز میں مخاطب ہُوئی۔۔۔۔۔لیکن تم میں کوئی پرابلم نہیں ہے۔۔۔۔میرے اندر ہی پرابلم ہے نا۔۔مجھے گلِٹ سا فیل ہوتاہے۔ پتہ نہیں میں تم کو بچہ دے پاؤ نگی کہ نہیں۔ وہ ایک انگلی سے آنسوں کا قطرہ صاف کرتے ہُوے بول رہی تھی۔۔۔۔۔تو راکیش سرعت سے بول پڑا۔۔”ممی پاپا نے ماتا رانی کے مندر جاکر پراتھنا بھی کی ہے اور تم ڈاکٹر کے پاس بھی جاتی ہو، دیکھنا ہم کو ضرور کامیابی ملے گی۔ وہ مسکرا کر بولا تو شیلا نے اسے بانہوں میں کس لیا۔
راکیش آسٹریلیا میں ایک بڑی کمپنی میں جاب کرتا تھا اورایک مہینہ کے لئے چُھٹی پہ آیا ہُوا تھا۔ دو سال پہلے بیوی کو بھی ساتھ لے کر گیا تھا ایک سال کے لئے لیکن پھر شیلا کے ویزا کی پرابلم ہُوئی اور ادھر راکیش کے ماں باپ بھی اکیلے ہونے کی وجہ سے بیمار رہنے لگے تو بیوی کو واپس روانہ کرنا پڑا تھا۔پھر شیلا نے بھی ایک پرائویٹ فرم میں جاب ڈھونڈی تو گھر اور دفتر کے کام میں مصروف ہونے لگی ۔اب گھر میں ایک نوکر اور ایک نوکرانی بھی تھی ،جو ممی پاپا کی خدمت کرتے تھے ۔شیلا کو بھی اب دو سال ہوگئے جاب میں ۔گھر میں پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی ۔اگر کوئی کمی تھی تو بس اولاد کی ۔
ایک مہینہ کی چھٹی کے دوران راکیش نے ماں باپ اور بیوی کے ساتھ خوب انجوائے کیا ۔سیر سپاٹے ۔خوب شاپنگ ۔گھر میں الگ الگ ڈشز کی تیاری ۔اب بس دو دن رہ گئے تھے واپس جانے میں۔ ’’بیٹا اب پردیس چھوڑ کے اپنے وطن میں ہی کچھ کام شروع کرو۔ تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو ۔دونوں بہنوں کی شادی ہو چکی ہے۔ ہم بھی اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔ کیا پتا کب زندگی کی شام ہو جائے۔ تم وہاں سے وائنڈ اپ کرکے اب ہمارے ساتھ ہی رہو ۔۔”اس کا باپ اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور مشورہ دے رہا تھا جسے راکیش غور سے سن رہا تھا۔” جی ہاں پاپا میرا بھی یہی ارادہ ہے کہ میں ایک سال وہاں گزار کے پھر ہندوستان میں ہی اپنا کاروبار شروع کروں۔ “راکیش اپنے والدین سے باتیں کر رہا تھا تو نوکر چائے لے کے آیا اور ساتھ ہی شیلہ بھی آفس جانے کے لئے تیار ہو کے آئی۔”آپ لوگ چائے بھیجئے مجھے دیر ہو رہی ہے میں جا رہی ہوں”۔وہ تیز تیز قدموں سے باہر کی طرف جانے لگی تو راکیش نے آواز لگائی “ٹھہرو میں ڈراپ کرتا ہوں ۔۔مجھے چاندنی چوک جانا ہی ہے ۔۔تمہارا آفس راستے میں ہی پڑتا ہے “۔
“نہیں نہیں میں جاتی ہوں ۔ میری ایک اور کلیگ مجھے فون کر رہی تھی ،وہ چوک میں گاڑی لے کے کھڑی ہے ،آپ آرام سے چائے پیجئے ۔چاندنی چوک بعد میں جاؤ گے آرام سے ” وہ پلٹ کے بول رہی تھی ۔۔تو راکیش بولا “چلو ٹھیک ہے “۔۔۔۔دن گزرتے گئے ۔
اس کی فلائٹ شام 4 بجے تھی ۔ فی الحال چھ مہینوں کے لیے آسٹریلیا جا رہا تھا ۔۔”اپنا خیال رکھنا میری جان شیلا ۔۔ممی پاپا کا بھی خیال رکھنا اور ہاں ہر رات مجھے ویڈیو کال کرنا میں تم کو وہاں بہت بہت مس کرتا ہوں ۔۔”وہ بیوی کا ماتھا چوم کے بولا ۔۔تو شیلا دُکھی انداز میں بولی “تم بھی اپنا خیال رکھنا اور ہم لوگوں کی چِنتا نہیں کرنا۔ اب وہ راکیش کا سوٹ کیس پیک کر رہی تھی ۔۔”پتا نہیں میں تمہارے بغیر وہاں کیسے جی پاتا ہوں مجھے سمجھ نہیں آرہا ۔ہر پل ہر وقت تمہاری یاد مجھے ستاتی ہے۔ یہ دوری تو مجبوری ہے میری جان ۔۔بس کچھ وقت اور ۔۔پھر ہم ساتھ ساتھ رہیں گے ۔۔”وہ خاصا جذباتی ہو کے بول رہا تھا تو شیلا جلدی سے بولیں ۔۔”ہماری خوشیوں کے لیے ہی تو ہم سے دور ہو ،تم کوئی فکر مت کرو ۔۔مست ہو کے اپنے کام میں مگن رہو وہاں ۔۔۔میں یہاں سب سنبھال لوں گی”۔
“ہاں ہاں تمہارے بھروسے ہی تو جا رہا ہوں ۔۔تم پر پورا یقین ہے مجھے ۔۔اس لئے اس گھر کی ذمہ داری تم پر چھوڑ کے جا رہا ہوں ۔۔”راکیش پھر سے اس کے قریب آ کر بولا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور پھر وہ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ اب راکیش چار مہینوں سے آسٹریلیا میں تھا تو ایک دن اس نے گھر فون کیا اور بیوی سے بولا ۔۔ہمارے کمرے میں جو وارڈروب ہے ۔۔مجھے یاد آیا ٹھیک طرح سے بند نہیں ہوتا ہے۔ میرا دوست دیپک کل وہاں آ رہا ہے وہ اس کام میں ماہر ہے ۔ٹھیک کر کے دے گا میں نے فون پر اس سے بات کی ۔”وہ تیز تیز آواز میں بول رہا تھاتو شیلا بولی “ارے کیا ضرورت ہے جب آپ گھر آؤگے پھر مرمت کرادیں گے۔”
تو راکیش بولا “ارے نہیں سمجھا کرو شیلا ۔۔اس کی مرمت ضروری ہے اور دیپک کے گھر میں پیسوں کی پرابلم چل رہی ہے،اسی بہانے میں اس کی مدد بھی کروں گا”۔۔۔ وہ بیوی کو سمجھا رہا تھا ۔
“لیکن اپنے دوست کو بولئے سنڈے کے دن آئے ، باقی دنوں میں آفس میں ہوتی ہوں “۔
“اوکے ٹھیک ہے میں بولوں گا “۔
پھر ایک دن دیپک مرمت کرنے آیا ۔شربت وغیرہ پی کے وہ راکیش کے کمرے میں گیا۔”بھابی آپ میرے لئے گرما گرم چائے بنا دیجئے کچن میں جاکے، نوکر کے ہاتھ کی نہیں مجھے آپ کے ہاتھ کی چائے چاہیے کیونکہ راکیش آپ کی چائے کی تعریف کرتا رہتا ہے ۔ میں بھی چکھ لوں کیسی بناتی ہیں آپ ’’وہ مسکراتے ہوئے بولا تو وہ بولیں ’’ہاں ضرور ۔۔ابھی اپنے ہاتھ سے ہی بنا کر چائے پلاتی ہوں آپ کو‘‘ ۔چائے وغیرہ پی کے اور اپنا کام مکمل کرکے گیا تو شیلا نے وارڈ روب چیک کیا۔اچھے طریقے سے مرمت کی تھی دیپک نے۔ چھ مہینے گزرنے کے بعد راکیش گھر آیا تو ممی پاپا خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس کے آنے سے گھر جیسے گھر بن جاتا تھا ۔ہر طرف چہل پہل سی اپنے روم میں شیلا کو اپنی بانہوں میں زور سے کس لیا”ارے چھوڑو مجھے میری جان لو گے کیا ۔۔اتنی زور سے پکڑ رہے ہو میری ہڈیاں ہی نہ ٹوٹ جائیں ۔۔”ہاں۔۔۔ جان لینے ہی تو آیا ہوں ۔۔”راکیش معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا تو شیلا بل کھاتے ہوئے بولی ” میری جان کے دشمن میری یاد کتنی آتی تھی وہاں “اس نے سوال پوچھا تو راکیش بولا “یہی کمبخت یاد ہی تو ہے جس نے میرا چین کھو دیا ہے۔۔ دن اور رات تمہارا ہی سوچتا رہتا ہوں اور تمہیں دیکھتا رہتا ہوں سامنے آنکھوں کے سامنے بالکل سامنے ۔۔۔بالکل قریب سے بار بار ۔۔ہر بار ۔۔”
وہ گہری سوچ میں ڈوب کر بول رہا تھا تو شیلا بولی ۔۔’’واہ اب کی بار تو میرا پتی شاعر اور فلاسفر بن کے آیا ہے۔نہ جانے کون سی کتاب پڑھ کے آئے ہیں جناب۔۔‘‘ وہ ہنسنے لگی تو راکیش تھوڑا گم سم سا ہوا ،جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہو۔ تو شیلا پوچھنے لگی “کیا بات ہے اداس دِکھ رہے ہو ؟”
اس نے ایک لمبی سانس لی اور بولا “تم کو پتا ہے شیلا ۔۔میں تمہیں ایک تحفہ دینے جا رہا ہوں۔ میں نے صرف ایک بار تمہارا برتھ ڈے منایا ہے۔ شادی کے ایک سال بعد ،19 جون کو تمہارا برتھ ڈے آنے والا ہے، میں وہ اچھی طرح سیلیبریٹ کرنا چاہتا ہوں۔میری دلی خواہش ہے کہ میں بڑا سا کیک اس دن کاٹوں تمہارے بہت سارے رشتہ داروں اور دوستوں کو بلاؤں اپنے رشتہ داروں کو بھی ۔میرے دل میں کسک تھی کہ میں تمہارا برتھ ڈے اچھی طرح سے نہیں منا پا رہا تھا ۔۔میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔اب میرے پاس بہت سارے پیسے ہیں “۔وہ جذباتی ہوا اور اس کی آنکھوں میں آنسووں کے دو موتی جھلملانے لگے ۔
شیلا سن کے بہت خوش ہوئی ۔۔او مائی گاڈ ۔۔تھینکس اے لوٹ۔۔۔خوشی سے اس کا چہرہ لال ہواجا رہا تھا اور چھوٹی چھوٹی خمار والی آنکھوں میں چمک سی آ گئی ۔”میں اپنے سبھی آفس والوں کو بلاؤ گی اور اپنے پاس وکی کھنہ کو بھی ۔”
“ہاں ضرور ۔۔۔۔۔‘‘راکیش جلدی سے بولا ۔
برتھ ڈے پارٹی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ انہوں نے رشتہ داروں کو انوائٹ کیا۔ دوستوں کو بھی۔شیلا کے باس اور سبھی آفس والوں کو ۔
وہ نیلے رنگ کی ساڑی ،جس کا پلو قلم کاری اور باڈر زری والا تھا ، میں بہت جچ رہی تھی۔ اس نے اپنے ریشمی بال کُھلے چھوڑے تھے ۔ گلے میں موتیوں کا ہار ۔۔ہاتھوں میں موٹے کنگن۔۔وہ بالکل ایک اپسرا جیسی دکھ رہی تھی ۔مسکرا کر اور ہنس ہنس کر مہمانوں کا استقبال کر رہی تھی۔اس کا باس وکی کھنہ ایک بڑا سا گلدستہ لے کر آیا اور اس کو تھما دیا “ہپی برتھ ڈے بیوٹی فل “وہ مسکرا کر بولا ۔تو شیلا کچھ شرماتے ہوئے بولی “تھینکس اے لاٹ سر۔”
راکیش بھی فارمل سفید سوٹ میں وجیہہ دکھ رہا تھا ۔کیک کٹنے کے بعد اور پارٹی شارٹی کے بعد کھانے پینے کا انتظام ہوا ۔۔سب نے خوب مستی اور انجوائے کیا۔۔” لاو، جس کا مجھے بے صبری سے انتظار ہے، وہ تحفہ کہاں ہے ؟”شیلا مسکرا کے راکیش کے قریب آ کر بولی تو راکیش نے مائک پکڑ لی “تو ہاں دوستو۔۔ اب وقت آیا ہے کہ میں اپنی بیوی کو گفٹ دوں۔جس کا میں نے اس سے وعدہ کیا تھا ۔۔آپ سبھی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ جائیں اور ہاں میرے دوست دیپک تم پردے پہ مووی چلائو”۔سبھی اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔”کون سی مووی راکیش۔۔۔؟ “شیلا نے حیرت زدہ نگاہوں سے اسے دیکھا ۔۔”ابھی پتہ چلتا ہے شیلا تم بیٹھو اپنی کرسی پر “اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا تو پردے پہ ریکارڈنگ چلنے لگی ۔شیلا کا بدن تھر تھر کانپنے لگا۔اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا، سارے رشتہ دار ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ۔شیلا کے ماں باپ بھائی بھابیاں ، ان سب کا منھ کھلے کا کُھلا رہ گیا۔ وہ سب دیوار پہ لگے اسکرین پہ دیکھ رہیں تھے کہ شیلا اپنے بیڈ روم میں اپنے باس وکی کھنہ کے ساتھ رنگ ریلیاں منا رہی ہے۔ وکی کھنہ ہر رات اس کے پاس آتا ہے۔ ویڈیوں میں وہ اپنے ساس سسر کے کھانے میں روز نیند کی گولیاں ملا رہی ہے۔۔اور ایک اور ویڈیوں چلا جس میں وہ دونوں ایک ہوٹل کمرے میں عریاں ہیں۔۔۔۔۔وکی کھنہ بار بار اپنی رومال سے اپنا پسینہ پونچھنے لگا۔”۔۔۔ب ۔ ۔ب۔۔۔۔ب۔۔۔بند کرو یہ سب کیا بکواس ہے۔ ہم دونوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔”وکی تیزی سے کھڑا ہُوا اور شیلا کے ہاتھ سے چائے کا کپ گِر گیا۔اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چُھپا لیا تو راکیش اپنی کرسی سے اٹھ کے ہال میں اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا اور بولا۔۔۔” شیلا تمہیں پتہ ہے جب میرے دوست دیپک نے تم کو اس وکی کے ساتھ دو تین بار آتے جاتے دیکھا تھا تو اس کو شک ہُوا اس نے مجھے فون کیا۔میری اس سے لڑائی ہُوئی۔۔کہ تم بکواس کرتے ہو۔۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔پھر دوسرے دن میں نے اس کو وہیں سے فون کیا اور میں نے اس سے اپنے رویئے کے لئے معافی مانگی۔ پھر ہم دونوں نے پلان بنایا۔۔میں نے اپنے اس گھر میں دیپک کی مدد سے جگہ جگہ خفیہ کیمرے فِٹ کروائے ، جس کو میں نے الماری کی مرمت کے بہانے بھیجا اور ہوٹل کے ایک بندے سے بھی جان پہچان ہے دیپک کی تو اس نے وہاں کا ویڈیوں نکال کے ہم کو دیا۔کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا شیلا۔۔۔آخر کیوں۔۔۔۔۔کیا کیا نہ کیا میں نے تمہارے لئے۔۔جب میں نے ماڈرن ملک میں خود کو بچائے رکھا تو تم نے اتنا بڑا دھوکہ کیوں دیا مجھے۔۔۔۔۔میں تم سے جتنی محبت کرتا تھا اس سے زیادہ نفرت کرتا ہوں اب۔کیا میری قربانی کا میری محبت کا یہی پھل مجھے ملِنا تھا اور میرے بزرگ ماں باپ کو اپنی ہوس مٹانے کے لئے روز خطرناک قسم کی پِلس کِھلاتی رہی یہ جان کر بھی کہ ممی دل کی مریضہ ہے‘‘۔۔وہ نیچے فرش پر بیٹھ کر رونے لگا۔ شیلا کے بڑے بھائی نے غصہ سے اپنے دانت پسیج لئے اور اٹھ کر بہن کے گال پر زوردار تھپڑ رسید کیا۔ وہ شرمسار ہوکر تیزی سے اوپر اپنے کمرے کی طرف دوڑی۔ کچھ دیر بعد نوکرانی چِلائی ۔۔۔” راکیش صاحب ادِھر آو۔۔۔شیلا دیدی نے خود کو پھانسی پہ لٹکایا۔۔۔۔شور سُن کر سبھی اوپر کی طرف دوڑے۔۔۔دیکھا وہ اوپر پنکھے کے ساتھ لٹک رہی تھی۔ راکیش اس کے دونوں پیروں کے ساتھ لپٹ کے رونے لگا ۔”مجھے سمجھ نہیں آتا میری غلطی ہے یا تمہاری ۔مجھے تمہیں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا یا تم کو میرے وشواس کا خون نہیں کرنا تھا ۔۔غلط کون ہے غلطی کس کی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے۔ تمہاری اس غلطی پہ بھی میں تم کو سب کے سامنے بد نام نہیں کرتا مگر مجھے تمہارا بے حد غصہ تھا کیونکہ جس پر بھروسہ ہوتا ہے وہی بھروسہ توڑے۔پھر اس سے نفرت بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے” ۔۔۔وہ اپنا سر اپنی گودی میں چھپا کر رونے لگا اور باقی رشتہ دار اور دوست شیلا کی لاش کو نیچے اتار کر ایک سفید چادر کے نیچے چھُپانے لگے۔

���
حسینی کالونی چھتر گام،کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
بشناہ جموں میں سنت کبیر کی یاد میں تقریب منعقد، لیفٹیننٹ گورنر کی شرکت
تازہ ترین
میرواعظ نے اچھن ڈمپنگ سائٹ بحران کو اُجاگر کیا، ’سمارٹ سٹی‘ کا ٹیگ دینے سے پہلے عملی اقدامات کا مطالبہ
تازہ ترین
بجبہاڑہ میں سڑک حادثہ دس افراد زخمی
تازہ ترین
حکومت جموں و کشمیر کو امن اور بھائی چارے کے ساتھ آگے لے جانے کے لئے کوشاں:ستیش شرما
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?