غازی سہیل خان
ڈاکٹر جان علاقے کا مشہور فزیشن تھا….بچن سے ہی ذہین تھااپنی ابتدائی تعلیم گاوں کےایک مشہور پرائیوٹ اسکول سے حاصل کی….بڑے ہی ناز و نخروں سے والدین نے پالا اور پڑھایا بھی…. ڈاکٹر جان کے والد علاقے کے بہت بڑے تاجر تھے، اللہ تعالیٰ نے جہاں دولت اور شہرت دونوں سے نوازا تھا وہیں مذہبی طور بھی انہیں علاقے میں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر جان اسلام کے علوم کے متعلق بھی معلومات رکھتے تھے بلکہ اپنے علاقے میں مساجد میں صبح شام کبھی کبھار دروس قرآن کی محفلیں بھی سجاتے تھے۔
ڈاکٹر جان کے والد خواجہ فخر الدین نے ایک دن اپنے بیٹے جان محمد، جو ابھی ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھا، سے کہا کہ بیٹا آپ کو بہت آگے جانا ہے، بہت محنت کرنی ہے بلکہ میرا خواب ہے کہ آپ ڈاکٹر بن جاو….. اور غریبوں کی مدد کرو تاکہ علاقے کا نام روشن ہو جائے۔
بابا میں ضرور آپ کی اس خواہش کو ایک دن پورا کروں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے…. جان محمد نے انتہائی جذبے اور یقین کے ساتھ اپنے بابا کو جواب دیا۔
بیٹا ہمارے علاقے میں ابھی تک کوئی ڈاکٹر نہیں بن پایا۔ یہ علاقہ تعلیم کے معاملے میں بھی بہت پچھڑاہوا ہے، آپ کی کامیابی سے یہاں کی غریب عوام کو فائدہ پہنچے گا۔علاوہ ازیں نوجوانوں کو آگے تعلیم حاصل کرنے کا حوصلہ بھی ملے گا، اس لئے آپ ایک شروعات کریں مجھے اُمید ہے کہ ایک دن آپ سے نوجوان INSPIRE ہو کے زندگی کے میدان میں خاصی ترقی کریں گے۔
وقت گزرتا گیا اور جان محمد نے NEET کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور اپنے ہی ضلع کے میڈیکل کالج میں داخلہ ملا۔ پانچ سال کی پڑھائی کے بعد خواجہ فخرالدین کا بیٹا ایک کامیاب ڈاکٹر بن کے نکلا۔
سارے علاقے کے لوگ ڈاکٹر جان کو مبارک بادی دینے کے لیے آئے۔خواجہ فخر الدین نے بھی کشمیری وازوان سے مبارک باد دینے والے لوگوں کی خاطر تواضع کی۔
مبارکباد دینے والے لوگ ڈاکٹر جان سے ایک ہی بات بولتے کہ ہم غریبوں کو آپ سے اُمیدیں وابستہ ہیں،ہر کسی کا علاج اُسے اپناجان کے کرنا، غریبوں کا خیال رکھنا، ہر کسی جانے انجانے کا علاج انتہائی ہمدردی سے کرنا۔
چند دنوں کے بعد ڈاکٹر جان کی پوسٹنگ ضلع کے ایک سرکاری اسپتال میں ہوئی، جہاں غریبوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ ڈاکٹر جان بھی بڑی دلچسپی سے ان کا علاج کرتے۔ ایک مرتبہ ایک مریض غلام حسن کا نام پکارا گیا ڈاکٹر کے چیمبر میں آتے ہی مریض نے ڈاکٹر جان کے سامنے اپنی تکلیف کا تذکرہ کیا اور ڈاکٹر جان نے بھی جلدی میں نسخے پر چند دوائیوں کے نام لکھ کر اسے چلے جانے کا اشارہ کردیااور جلدی سے چیمبر سے نکلنے کے لئے کہا۔ مریض مطمئن نہیں ہوا تو اُس نے ڈاکٹر جان سے اپنے اور اس کے والد کی دوستی کے متعلق بتایا۔ ابھی وہ بات پوری بھی نہ کرپایا تھا کہ ڈاکٹر جان نے مریض سے نسخہ واپس لے کر پہلی دوائی کو حذف کر کے نئی دوائی تجویز کی، وہیں مریض سے گویا ہو کے ڈاکٹر جان نے کہا جب بھی کبھی چیمبر میں آیا کریں اپنا تعارف دیا کریں۔
مریض غلام حسن ہکا بکا ڈاکٹر جان کی اور دیکھتا ہوا چیمبر سے باہر جاتا ہوا من ہی من میں کہہ رہا تھا کہ کیا ڈاکٹر بھی مریض کی دوستی اور رشتہ داری کو دیکھ کے دوائیاں تجویز کرتے ہیں…؟؟؟
بارہمولہ ، کشمیر
موبائل نمبر؛ 7006715103