Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

سماج سُدھارکی کہانی

Mir Ajaz
Last updated: January 8, 2023 12:14 am
Mir Ajaz
Share
14 Min Read
SHARE

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

چمکیلی بیگم کو کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اُس منحوس لمحے کا دُکھ تادم ِ حیات نہیں بھول پائے گی کہ جب وہ علم نفسیات میں پی ایچ ڈی کررہی تھی تو شعبے سے باہر آتے ہوئے اُس نے پہلی بار فخر اُلفت کو دیکھا تھا۔فخر اُلفت انگریزی میں پی ایچ ڈی کررہا تھا۔وہ انتہائی خوب صورت تھا۔خوب صورت سُوٹ بُوٹ میں وہ کسی فلمی ہیرو سے کم نظر نہیں آتا تھا۔اُس کے چمکیلے سیاہ بال،دمکتے رُخسار ،میانہ قد ،سفید موتیوں دانت ،سیاہ آنکھیں ،گندمی رنگ اور اُس کا چاک وچوبند ساوجود دیکھ کر چمکیلی بیگم لمحہ بھر تک اُسے دیکھتی رہ گئی تھی ۔دوسری جانب چمکیلی بیگم بھی سراپا غزلیہ وجود لیے اُس کے سامنے کھڑی رہ گئی تھی ۔وہ بھی خوب صورتی میں کسی سے کم نہیں تھی ۔دونوں کی آنکھیں چار ہوئی تھیں ،ہونٹوں پہ مسکان نے دستک دی تھی ،دونوں کے دلوں میں جوانی ،چاہت اور محبت کی اُمنگ وترنگ کی شہنائی بج اُٹھی تھی ،دونوں کو ایک دوسرے کے وجود سے پرفیوم کی خوشبو آرہی تھی ۔چمکیلی بیگم نے ہی پہل کی تھی ،اُس نے فخر الفت سے پوچھا تھا
’’جی آپ کون اور کیا ہیں؟‘‘
فخر اُلفت نے تبسّم آمیز لہجے میں جواب دیا تھا
’’جی ہاں ! مجھے فخر اُلفت کہتے ہیں ۔میں شعبہ ٔانگریزی میں پی ایچ ڈی کررہا ہوں‘‘
’’اچھا آپ پی ایچ ڈی کررہے ہیں‘‘چمکیلی بیگم نے کسی حد تک مسرت محسوس کرتے ہوئے اُسے سرتاپا دیکھا تھا۔
فخر اُلفت نے کہا تھا
’’جی ہاں !میں پی ایچ ڈی کررہا ہوں ‘‘پھر اُس نے چمکیلی بیگم سے پوچھا تھا
’’آپ کا تعارف؟‘‘
’’میرا نام چمکیلی ہے ۔میں علم نفسیات میں پی ایچ ڈی کررہی ہوں‘‘
اس پہلی ملاقات میں ہی اُن دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے موبائل نمبر لکھوائے تھے ۔موبائل فون نے اُن دونوں کے درمیان قربتیں پیدا کردی تھیں ۔اب اُن کی ملاقاتیں کبھی کنٹین میں اور کبھی کسی پارک میں ہونے لگیں ۔ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے وہ دونوں یوں لگتے تھے کہ جیسے وہ آپس میں میاں بیوی ہوں۔اُن میں جذبہ ء عشق دھیرے دھیرے بڑھتا چلا گیا تھا۔فون پہ اُن کی پیار ومحبت کی باتیں ہونے لگی تھیں ۔کوئی چھ ماہ کا عرصہ جب پیار ومحبت کی تپش میں گزرگیا تو ایک دن فخر اُلفت نے تنہا ایک پارک میں بیٹھے بیٹھے چمکیلی بیگم کو کہا تھا
’’کیوں نہ ہم اپنے اس پیار کو شادی کا رُوپ دے دیں۔ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
چمکیلی بیگم لمحہ بھر تک خاموش رہی تھی پھر کہنے لگی تھی
’’میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ اس چاہت کے سلسلے کو شادی میں بدل دیں ۔یوں بھی ہم دونوں کی پی ایچ ڈی بہت جلد مکمل ہونے جارہی ہے ۔لیکن شادی اور پیار دو الگ الگ جذبے ہیں ۔شادی ازدواجی رشتے کو احساس ذمہ داری کے ساتھ نبھانے کا نام ہے جبکہ پیار دو نوجوان جنس مخالف کے دلوں اور دماغوں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہونے کا نام ہے۔ہاں یہ بات بھی آپ کو کہہ دینا چاہتی ہوں کہ میں نے پیار میں ہوئی شادیوں کا بدترین انجام دیکھا ہے ‘‘
فخر اُلفت نے چمکیلی بیگم کو یقین دلاتے ہوئے کہا تھا
’’ سُنو ! چمکیلی !میں اُن عاشقوں میں سے نہیں ہوں جو بے وفائی کرتے ہیں ۔میں تمہیں دل وجان سے چاہتا ہوں اور چاہتا رہوں گا۔تمہارے لئے ،تمہیں خوش رکھنے کے لیے میں اپنی تمام خواہشیں قربان کرلوں گا۔اس لیے ہزار باتیں کہے زمانہ میری وفا پہ یقین رکھنا۔تم میری زندگی میں میری بیوی بن کر آؤ گی تو مجھے یوں محسوس ہوگا کہ میری زندگی میں بہار آگئی اور اگر خدا نخواستہ تم میری رفیقہ ء حیات نہ بنی تو میں سنیاس لے لوںگا۔تمہاری یاد میں دشت وصحرا میں گھومتے گھومتے دم توڑ دوں گا‘‘
چمکیلی بیگم نے فخر اُلفت کی مجنونانہ باتیں سُنیں تو حیرت سے پوچھنے لگی تھی
’’اچھا…!تو گویا آپ مجھے اس حد تک چاہتے ہو‘‘
’’ہاں… چمکیلی!شاید تم کو میری چاہت کا اندازہ نہیں ہے ۔یقین جانو جب تم میری نظروں کے سامنے آتی ہو تو مجھے ،میرے دل کو چین آتا ہے ۔میں خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتا ہوں‘‘
چمکیلی بیگم ،فخر اُلفت کی باتیں سُن کر ہنس پڑی تھی ،پھر اُس سے کہنے لگی تھی
’’غور سے سُن لیجیے !کسی شاعر نے عشق کے بارے میں صحیح کہا ہے کہ
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
اب آپ مجھے بتایئے کہ کیا آپ آگ کے دریا میں ڈوبنے کیلئے تیار ہیں؟‘‘
فخر اُلفت نے جھٹ سے چمکیلی بیگم کا دایاں ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے دل کے قریب لے جاکر کہا تھا
’’چمکیلی! مجھے تم میں ڈوبنا ہے ۔تمہاری ہرادا ،تمہارے نازواندازمجھے چین سے رہنے نہیں دیتے‘‘
چمکیلی نے پوچھا تھا
’’کیا آپ کے والدین اس بات پر راضی ہوجائیں گے کہ میں تمہاری شریک حیات بنوں؟‘‘
’’ہاں وہ میری مرضی کے مطابق میری شادی کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے ۔تم اس بات کی فکر نہ کرو‘‘
فخر اُلفت نے بھی چمکیلی بیگم سے پوچھا تھا
’’کیا تمہارے والدین اس بات پر راضی ہوجائیں گے کہ تم اپنی مرضی سے شادی کرو؟‘‘
’’ابّا مان جائیں گے لیکن امّی میرارشتہ میرے ماموں زاد لڑکے طفیل سے کروانا چاہتی ہیں ۔طفیل انجینئر ہے لیکن میں طفیل سے شادی کرنا نہیں چاہتی ہوں‘‘
فخر الفت یہ سُن کے کسی حدتک تشویش میں پڑ گیا تھا،پھر اُس نے چمکیلی بیگم کو کہا تھا
’’چمکیلی!شادی زور زبردستی کا نام نہیں ہے ۔یہ دو دلوں کے ملاپ کانا م ہے۔ اس لیے تم اپنی مرضی سے شادی کرنا۔سُنو جب دل ہی نہ مانے تو بہانے ہزار ہیں‘‘
پھر ایک دن ایسا بھی آیا تھا جب فخر اُلفت اور چمکیلی بیگم کی آپس میں شادی ہوگئی تھی ۔شادی بڑی دُھوم دھام سے ہوئی تھی ۔چمکیلی بیگم دُلہن رُوپ میں اور زیادہ چمک اُٹھی تھی ۔اُس کی سہیلیوں نے اُس کی مہندی رات میں دیر تک گیت گائے تھے ۔ہنسی مذاق میں اُسے شادی کا مفہوم سمجھایا تھا۔دوسرے دن اُس کے ارمانوں کا حسیں شہزادہ فخر الفت پھولوں سے سجی ایک خوب صورت گاڑی میں دُلہا بن کر چمکیلی بیگم کے گھر پر آیا تھا۔براتیوں میں بلا لحاظ مذہب وملّت اُس کے دوست واحباب شامل تھے ۔سب سے پہلے نکاح ہوا تھا ۔نکاح کے دوران ویڈیو بنانے والوں اور فوٹو گرافروں نے ہر زاویے سے اس پورے شادی کے ماحول کو اپنی ویڈیوز اور کیمروں میں قید کردیا تھا۔دیکھتے دیکھتے چمکیلی بیگم اپنے والدین ،بھائیوں ،بہنوں اور خاندان والوں سے رُخصت ہوگئی تھی ۔
شادی کے بعد چھ ماہ تک فخر الفت اور چمکیلی بیگم پُر شباب جسم وجان کے ساتھ رنگ ونورمیں سجی زندگی کا لفظ اُٹھاتے رہے ۔اُس کے بعد چمکیلی بیگم کے پاؤں بھاری ہونے لگے ۔اُس کے گل بدن میں تخلیقی عمل شروع ہوچکا تھا ۔ایک سال کے بعد اُس نے ایک پھول جیسے بچّے کو جنم دیا ۔اِدھر فخر الفت کی قسمت کا ستارہ بھی چمک اُٹھا ۔وہ کالج میں انگریزی کا پروفیسر تعینات ہوگیا۔گھر میں خوشیوں کی برات آگئی ۔کوئی تین سال کے بعد چمکیلی بیگم نے ایک اور بیٹے کو جنم دیا ۔اب فخر اُلفت دو بیٹوں کا باپ بن گیا تھا۔دونوں میاں بیوی ایک پُرسکون زندگی گزاررہے تھے ۔اُن کی شادی ہوئے اب سات سال ہوگئے تھے لیکن اُس کے بعد اُن کو نہ جانے کس کی نظر بد لگ گئی کہ ایک روز چمکیلی بیگم کو یہ بُری خبر سُننے کو ملی کہ اُس کے سچّے عاشق اور شوہر محترم فخر الفت نے اپنے کالج کی ایک لڑکی کو اغوا کرکے کورٹ میریج کرلی ہے!۔کچھ ہی دنوں کے بعد اُس نے چمکیلی بیگم کو بغیر کسی جوازیت کے طلاق بھی دے دی ۔یہ خبر چمکیلی بیگم کے لیے ایک بہت بڑے دُکھ ،حیرت اور المیے کا باعث تو بنی لیکن اُس نے کسی بھی طرح کا کوئی احتجاجی رویّہ اختیار نہیں کیابلکہ اُس نے ایک بلند ہمت اور بے باک خاتون کی طرح اس صدمے کو برداشت کرلیا۔اُس کے دل میں مرد ذات کے لیے سخت نفرت پیدا ہوگئی ۔اُس نے یہ مصمم ارادہ کیا کہ وہ کسی بھی مردِ کو اپنی زندگی میں بطور ِ شوہر نہیں آنے دے گی ۔اس کے بدلے وہ ایک سماج سُدھارکی کے طور پر کام کرے گی۔اس کے لیے اُس نے ایک اشتہار بھی فیس بُک پہ اپ لوڈ کردیا جس میں اُس نے یہ تحریر کیا تھا کہ وہ والدین جن کی لڑکیاں اُن کی مرضی کے خلاف شادی کرنا چاہتی ہیں وہ میرے موبائل نمبر پر مجھ سے رابطہ قائم کریں تاکہ میں اُن لڑکیوں سے ملاقات کر کے اُنہیں پیار ومحبت کے جذبے سے سرشار شادی کے بدترین انجام کے بارے میں آگاہ کرسکوں۔اس طرح سے چمکیلی بیگم نے بہت سی لڑکیوں سے ملاقات کر کے اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اپنے والدین کی مرضی کے مطابق شادی کریں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ چمکیلی بیگم نے پولیس ،سی آئی ڈی اور دوسری سرکاری ایجنسیوں کے عہدے داروں کی مدد کے لیے بھی اپنے آپ کو پیش کیاتاکہ سماج میں پھیلے غنڈے،بدمعاش،رشوت خور ،لچّے ،لفنگے اور چور قسم کے لوگوں پر نکیل کَس کے اُنہیں راہ ِ راست پر لایا جائے ۔ایک روز اُسے ایک حیاءسوز ترکیب سُوجھی ۔اُس نے نہادھو کے خوب صورت لباس زیب تن کیا ۔کریم ،پوڈراپنے چہرے پر مَلا۔سر کے بالوں میں پھولوں کا گجرا باندھا۔ہونٹوں پہ لِپ سٹک اور آنکھوں میں کاجل لگانے کے بعد جب اُس نے قدِ آدم آئینے میں اپنا سراپا دیکھا تو اُسے خوشی کے ساتھ ہنسی کی ترنگ سی محسوس ہوئی ۔تب اُس نے اپنے قیمتی موبائل سیٹ سے اپنے آپ کا فوٹو کھینچا اور اُسے اپنی فیس بُک وال پہ لکھ کے اپ لوڈ کردیا کہ عشق وعاشقی کے خواہش مند حضرات مجھ سے اس موبائل نمبر پر رابطہ قائم کریں ۔کوئی دوگھنٹے کے بعد چمکیلی بیگم کو عیاش ،آوارہ اور بدمعاش قسم کے لوگوں کے فون آنا شروع ہوئے ۔اُس نے سب کو باری باری بڑے پیار ومحبت سے اتوار کو پورے چاربجے سات رنگی پارک میں ایک مخصوص جگہ پہ آنے کی دعوت دی ۔اتوار کو جب وہ پورے چار بجے سات رنگی پارک میں ایک مخصوص جگہ پر پہنچی تو وہاں چمکیلی بیگم کے درجنوں عاشق جمع ہوچکے تھے جن میں زیادہ تر شادی شدہ تھے ۔ہر عاشق دوسرے کو دیکھ کر حیران تھا۔چمکیلی بیگم ہنستی مسکراتی ہوئی خوش آمدید کہہ رہی تھی ۔پھر اُس نے اُن سے الگ ہوکر پولیس آفیسر کو فون کرکے سات رنگی پارک میں چند سپاہیوں کو ساتھ لے کر آنے کو کہا۔کچھ ہی وقت میں پولیس آفیسر اپنے سپاہیوں کے ساتھ پارک میں پہنچا اور آتے ہی اُن تمام بدمعاشوں کو حراست میں لیا ۔اُن سب کو پولیس کی گاڑی میں بٹھا کے تھانے لایا گیا جہاں ساری رات پولیس والے اُنھیں اُلٹے کان پکڑواکے پیچھے سے لاتیں مارتے رہے اور کبھی ڈنڈے سے اُن کی پیٹھ کی دُھلائی کرتے ۔اِدھر چمکیلی بیگم کو اس بات کی خوشی ہورہی تھی کہ وہ مختلف حربے استعمال کرکے سماج کو سدھارنے میں کامیاب ہورہی ہے۔
���
سابق صدر شعبۂ اردو
بابا غلام شاہ بادشاہ یویورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532

 

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
بڈگام میں چار منشیات فروش گرفتار، بھاری مقدار میں ممنوعہ نشیلی اشیا برآمد: پولیس
تازہ ترین
امرناتھ یاترا 2025: شمالی کشمیر میں سکیورٹی انتظامات کا اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران جائزہ لیا گیا
تازہ ترین
کپواڑہ میں ایس آئی اے نے پاکستان میں مقیم ملی ٹینٹ کی جائیداد ضبط کر لی
تازہ ترین
سرینگر میں کانگریس کی عظیم الشان عید ملن تقریب منعقد
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?