خوشنویس میر مشتاق
مُقیم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے ۔ والدین کے بے جا لارڈ پیار نے اُسے زمانے کے سرد و گرم سے آج تک بچّا کے رکھا ہے۔ مُقیم کے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔ عزّت، شہرت، بنک بیلنس، ایک عالی شان گھر اور وہ تمام تر آسائشیں جن کی اِنسان سدا خواہش کرتا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ اُکھڑا اُکھڑا سا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اُس کو کسی چیز کے نہ ہونے کا احساس مُستقل ستائے جا رہا ہے۔ اتنی آسائشوں کے باوجود بھی مُقیم کسی احساسِ محرومی کا شکار نظر آتا ہے۔
بھلے ہی زبان سے کچھ نہ کہے لیکن آنکھوں سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کسی ذہنی اِبتلا میں مُبتلاہے۔ دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد شام ہوتے ہی اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے کسی خیال میں گُم تکیے کے ساتھ ٹِیک لگائے نہ جانے کس اُلجھن کو سُلجھانے کی کوشش میں لگا ہے۔ اتنی عیش و عشرت اور اتنی آسائشوں کے باوجود بھی اُسے ان سب چیزوں سے وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ اِتنا بڑا عالی شان سا گھر قفّس لگنے لگتا ہے۔ تنہائیاں مُسلسل کاٹنے کو دوڑی آرہی ہیں۔
در و دیوار سے خوف آنے لگتا ہے۔ اندر ہی اندر ایک عجیب قسم کی گُٹھن کا احساس ہو رہا ہے۔ مُقیم نے ساری رات اسی پریشانی اور اضطراری کیفیت میں گُزاری۔
علی الصُبح اِسی اضطرابی کیفیت میں اپنے تن پہ ملبُوس پھٹی پُرانی چادر اُوڑھے تمام تر آسائشوں سے کوسُوں دُور کسی منزلِ بے نام کی اور محو سفر ہوا۔ خود کا ہوش نہ دوسروں کی فکر ، خاموش سُنسان راستے پر آبلہ پا تنِ تنہا سفر کیئے جا رہا ہے۔ پاؤں پوری طرح سے شل ہو چکے ہیں ۔ ٹھیک سے اب چلا بھی نہیں جا رہاہے۔ دوپہر کی کڑی دھوپ اور سفری تھکان کی سختی سے بچنے کیلئے پاس ہی میں ایک پُرانے اور بوسیدہ پیڑ کے نیچے تھوڑی دیر کیلئے سستانے بیٹھ گیا۔ مُسّلسل سفری کلفت سے دوچار تھکن کا شدّت سے احساس ہو رہا ہے۔ کئی دنوں کی لگاتار مسّافت طے کرتے کرتے مُقیم پر نیم بےہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ بیٹھنے کی ہی دیر تھی کہ اُس کی آنکھ جھٹ سے لگ گئی۔ راہ چلتے لوگ اُسے کوئی مُسافر سمجھ کر اپنے حال پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اتنے میں کہیں سے ایک محصّور کُن آواز فضّا میں گُونج اُٹھی۔ “اللہ ھو اکبر” کی فلک شِگاف صدائیں بُلند ہونے لگی۔ مُقیم کی جب آنکھ کُھلی تو لوگ جوق درّ جوق نہ جانے کہاں دوڑے چلے جارہے ہیں کسی کو کچھ معلوم نہیں !
مُقیم نیم بے ہوشی کی حالت میں غیر اِرادی طور پر لوگوں کا تعاقُب کرتے کرتے ایک مسجد کے صحن میں داخل ہوا۔ مُقیم مسجد کے مِیناروں کو ایسے تکتا رہا جیسے صدّیوں کی کوئی مُراد پوری ہونے جارہی ہو۔ جیسے تیسے وضو بنا کر مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی چہرے پر ایک اِطمینان کی کیفیت طاری ہو گئی۔ بے چین رُوح کو جیسے قرار مل گیا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگیں ۔ عاجزی و اِنکسّاری کے ساتھ اللہ کے حضور گِڑگِڑانے لگا۔ سجدے میں سر رکھتے ہی جیسے صدّیوں کا بڑا بوجھ دل سے اُتر گیا ہو ۔ راحت کی ایک لمبی سانس لینے کے بعد مُقیم کے مُنہ سے بے ساختہ چند کلمات نکل پڑے۔
” یہی تو میری اصل منزل ہے برسوں اِسی کی تو مجھے تلاش تھی۔”
���
ایسو اننت ناگ، کشمیر،[email protected]